ناموسِ رسالت – رملہ ثناء

ناموسِ رسالت
محمد کی محبت دینِ حق کی شرط اول ہے
اسی میں ہو اگر خامی تو ایماں نامکمل ہے

کہتے ہیں جب ہم کسی موضوع پر بار بار بات کرتے ہیں تو یا تو وہ موضوع ہمارے ذہنوں پرسوار ہو جاتا ہے یا پھر اپنا اثر مکمل طور پر کھو بیٹھتا ہے اور من الحیث المسلمان ہم اس بات پر جتنا شرمندہ ہوں کم ہے کہ توہینِ رسالت جیسا اہم ، انتہائی اہم بلکہ سب سے اہم موضوع ہمارے ذہنوں پر سوار ہونے کی بجائے اپنا اثر کھو بیٹھا ہے۔
ذرا تاریخ کی پگڈنڈیوں پر چلتے ہوئے تھورا پیچھے جائیں تو ہمیں یہ بات جان کر شرم آئے گی کہ فرانس سے پہلے بھی کتنے ہی بےشرم اور بےغیرت ممالک اور لوگوں نے ناموسِ رسالت کو پامال کرنے کی کوشش کی مگر ہم سوئے رہے۔ نجانے کیوں ہمیں اس بات کا ادارک نہیں ہوتا کہ یہ مسلۂ ہر مسلے کی طرح اتنا غیر اہم اور معمولی نہیں ہے کی ہم اِس پر تھوری دیر شور مچا کر خاموش ہو جائیں گے اور اس سے ہمارے فرض کی تکمیل ہو جائے گی۔ اگر ہم نے یہی طریقہء قار اپنائے رکھا تو کچھ بعید نہیں کہ چار پانچ سال بعد پھر سے سلمان رشدی جیسے مرتد اور منافق، آسیہ جیسے ملعون اور ڈیوڈ میکرون جیسے سنکی اور خبطی لوگوں کی زیرِ صدارت ممالک اُٹھیں گے اور مسلمانوں کے جزبات کو مجروح کرتے رہیں گے۔مگر شاید یہاں میں تھوری غلط ہوں ۔ہمارے جزبات کو بھلا کیا فرق پڑتا ہے بس ہمیں ذرا سیجو وقتی ٹھیس پہنچتی ہے ،ہم اسکا سدِباب سوشل میڈیا سائیٹس پر احتجاج کر کے نکال لیتے ہیں۔ دراصل ہمارا المیہ ہی یہی ہے، ہم نے اِس ڈیجیٹل احتجاج کو ہر مسلے کا حل مان لیا ہے۔ ہم اپنے ایمان کی کمزوری اور ضعیفی کی وجہ سے اِس سے زیادہ کچھ کر ہی نہیں سکتے۔ ہماری یہی کمزوری اِن شیطانی دماغ رکھنے والے کافروں کو ہلّا شیری دیتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں پہلی بار “سرکاری” سطح پر “حکومت کی زیرِ صدارت” باقاعدہ مسلمانوں کو للکارتے ہوئے اور یہ”چیلنج” کرتے ہوئے اس قسم کی گھناؤنی حرکت کی گئی ہے کہ کوئی روک سکتا ہے تو روک کر دِکھائے۔ ہماری بزدلی اور کم ہمتی نے تاریخ کو آج وہ دِن دکھلایا جو ہمارے اشرف المخلوقات ہونے اور اُس پر بھی ستم یہ کہ ایک “مسلمان” ہونے پر ایک واضح دھبہ اور سوالیہ نشان ہے۔۔۔۔
ہم نے کبھی یہ سوچا کہ ہم “سو کالڈ اشرف المخلوقات” کہاں جائیں گے اگر ہماری اِس بےحسی پر زمین اپنا سینہ چاک کر کے ہمیں اپنے اندر سمو لے، اگر یہ آسمان غضب ناک ہو کر ہم پر آ گِرے، اگر یہ ہوائیں بے قابو ہو کر ہماری بستیاں اُلٹ دیں، اگر یہ دریا ، سمندر ہمیں لے ڈوبیں اور ان سب کے اوپر بیٹھا ہمارا خُدا۔۔۔۔ کیا اُسے یہ سب کرنے کے لئے “کُن” کہنے میں کوئی دِقّت ہے؟؟ نہیں ۔۔ہر گِز نہیں ۔۔۔۔مگر وہ رسّی ڈھیلی چھوڑ کر دیکھ رہا ہے اپنے محبوب کی ناموس کی بے حُرمتی اور اُس پر قدغن لگی ہماری زُبانیں۔ مگر یاد رکھیے یہ رسی ہمیشہ کیلئے ڈھیلی نہیں چھوری جاتی۔ یہ کھینچی بھی جائے گی اور پھر یہ سب نظامِ قدرت جو ہمیں اپنے اندر محفوظ کیے ہوئے ہیں ہم پر قہر بن کر برس بھی سکتے ہیں ۔
ہم اگر ذرا سی دیر کیلئے بھی اپنے ضمیر کے کٹہرے میں آکر سوچنے کی زحمت کریں تو ہم اس نتیجے پر بغیر کسی پسو پیش کے پہنچ سکتے ہیں کہ ہم بے حسی اور بزدلی کے ساتھ ساتھ کم عقلی کی وہ زندہ مثال بن چکے ہیں جس نے ڈیجیٹل احتجاج کو اپنا آخری حل مان لیا ہے۔اور یہ جو عشق رسول میں ڈوبی ہو ئی پوسٹیں اور اسٹیٹس لگا لگا کر ہم اپنے تئیں اپنا فرض انجام دے رہے ہیں یہ فقط ایک راہِ فرار ہے یا پھر ہم اتنے کم عقل ہیں کہ ایسا کر کے ہم خود کو ہی یہ دھوکہ دے رہے ہیں کہ یہی ایسے لوگوں کو دھول چٹوانے کا بہترین طریقہ ہے حالانکہ اس سے اُن کفار یا ہماری حکومتوں کو چنداں فرق نہیں پڑتاسو اب بہت ہوا خود کو دھوکا دینا۔ اب وقتہم سے ‏عملی اقدام کا تقاضاکرتا ہے۔آئیے اس ربیع الاول اول کے پاکیزہ ماہ مبارک میں گھروں کو چراغاں کرنے کی بجائے اپنے دلوں کو چراغاںکریں۔ اپنے دل کے آئینے پر لگی کالک صاف کریں اور عملی ثبوت دیتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسلم کی ناموس کے لیے اپنے گھر سے نکلیں۔ ذرا خود سوچیں یہ کیسا انصاف ہوگا کہوہاں ہمارے رسول کی ناموس کی توہین ہوتی رہے اور یہاں ہم صرف اپنے گھروں کو چراغاں ہی کرتےرہ جائیں۔ وہاں وہ لوگ کھلے عام ڈنکے کی چوٹ پر مسلمانوں کو چیلنج کرتے ہوئے گساخئ رسول کرتے رہیں اور یہاں ہم میلاد کی محفلیں سجاتے رہیں۔ جو ذکرِ رسول آپنے محفلوں میں بیٹھ کر کرنا ہے وہ ذکرِ رسول لبوں پر لیے ہم حضور کی ناموس بچانے کیلئے بھی تو نکل سکتے ہیں۔ ہمیں نہیں رُکنا توآئیے یہ سب کرنے کی بجائے اپنا اصل فرض ادا کرتے ہوئے فرانس ایمبسی جا کر وہاں اتنا پُرزور احتجاج کریں کہ حکومت فرانس ایمبیسی بند کرنے اور فرانس کے سفیر کو دھکے دے کر ہمارے ملک سے دفعکرنے پر مجبور ہو جائے۔ حکومت چاہے فرانس جانے والے راستے کو بند کرے یا کوئی اور اوچھا ہتھکنڈا استعمال کرکے ہمیں روکنے کی کوشش کرے ہمیں نہیں رُکنا آگے بڑھتے جانا ہے اورحکومت کو اس حد تک مجبور کرنا ہے کہ اُس کے پاس ہماری بات سننے کے سوا کوئی اور چارہ نہ رہے تو آئیے ہم سب مل کر عملی احتجاج کے ذریعے حکومت پر دباؤ ڈالیں کہ فرانس کے ساتھ تمام تعلقات اور درآمد برآمد بند کی جائیں اور فرانس کی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے۔فرانس یا ہالینڈ جیسے کسی بھی ایسے ملک یا فرد کی پشت پناہی نہ کی جائے جو حضور کی ناموس کے لئے خطرہ ہے۔ کیونکہ کہ ہماری کم ہمتی اور صاحب اقتدار لوگوں کی چند ٹکوں کے عوض انگریزوں کی غلامی کی وجہ سے آج تک ایسا ہی ہوتا آیا ہے مگر یہ صرف حکومت کا ہی قصور نہیںہے ، اس حمام میں سبھی ننگے ہیں ، ہم بھیآجتک اپنے ہی مفادات کے لیے لڑتے آئے ہیں۔ یہ اللہ اور اس کے رسول کی محبتیں تو فقط کہنے کو رہ گئی ہیںلیکن ابھی بھی ہم اپنی پچھلی کوتاہیوں اور لاپرواہیوں کی قیمت ادا کر سکتے ہیں۔اب وقت ہے کہ ہم اس حکومت کے سر پر جا کر کھڑے ہوں جو آسیہ ملعونہ اور سلمان رشدی جیسے کتنے ہیں گناہ گاروں کو با عزت بری کر کے ملک سے فرار کرتی رہی ہے اور اب بھی اس حکومت کی نظر توہین رسالت کی بجائے ملکی معشیت کے مسئلہ پر ہے۔ یہ ایف اے ٹی ایف کے تقاضوں، ملکی معشیت اور قومی سلامتی کا رونا رونے والے حکمران۔۔۔۔ انہیں یہ احساس ہی نہیں کہ ان سوکالڈ مسئلوں سے بڑا اور پیچیدہ مسئلہ توہینِ رسالت ہے۔ فرانس کے ساتھ ساتھ درآمدی برآمدی تعلقات ختم کرنے ، فرانسیسی مصنوعات پر پابندی لگانے ، فرانس ایمبسی بند کرنے اور انکے سفیر کو ملک سے دفاع کرنے سے ہمارے ملک کی معیشت پر تو اثر پڑ سکتا ہے مگر ہمارا ایمان بچ سکتا ہے اور یہی بات حکومت اور صاحب اقتدار لوگوں کے لیے سمجھنا محال ہے ۔ ہمیں یہ بات بات انہیں باور کروانی ہے کہ
قوممذہب سے ہے، مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذبِ باہم بھی نہیں ،محفلِ انجم بھی نہیں
ترکی کا عظیم صدر اس شعر کا مفہوم بہت اچھے سے سمجھ چکا ہے اسی لیے اس نے فرانس کے ساتھ تعلقات کی پرواہ کئے بغیر انکے صدر کو “دماغی مریض” ہونے کا خطاب دیا ہے ۔جسکی وجہ سے آگ بگولا ہو کر فرانس نے اپنے سفیر کو ترکی سے واپس بلا لیا ہے۔مگر اس کے علاوہ ابھی تک کسی بھی مسلم ملک نے فرانس کےسفیر کو لات مار کر نہیں نکالا ۔جب کہ وقت چیخ چیخ کر ہم سے اس بات کا تقاضا کر رہا ہے۔ اس لئے یہی وقت ہے۔اگر ہم اب بھی اس حکومت کے لیے سر درد نہ بنے تویہ ہمیںاو آئی سی سے میٹنگ کرنے کے لارے دیتی رہے گی ۔ اگر یہ حکومت اقتدار پانے کے لئے دو سال تک عوام کو سڑکوں پر گھسیٹ کر دھرنا دے سکتی ہے تو ہم اس حکومت کے سامنے ناموسِ رسالت کی خاطر سیسہ پلائی دیوار کیوں نہیں بن سکتے؟ کیوں کہ یاد رکھیے تاریخ اگر ایک طرف طرف ہماری بے حسی کی داستان خود میں سموئے ہوئے ہے تو دوسری طرف ممتاز قادری، خالد اور عمر جیسی ہزاروں مثالوں سے بھی بھری ہوئی ہے جنہوں نے حکومت کو شیشہ دکھانے کے ساتھ ساتھ آج کے زمانے میں بھی صحابہ کے جذبوں اور ہمتوں کو زندہ کیا ہے۔بس آج ہمیں بھی اِنہی کی طرح بننے کی ضرورت ہے۔ اِنھی جذبوں اور ہمتوں کو ساتھ لیےہمیں حکومت کو یہ احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ ابھی ہم سوئے نہیں ہیں۔ یقین جانیے یہ وقتی عملی قدم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کا حق ادا کرنے کے لیے بہت ناکافی ہے ہے مگر ہم چونچ میں دانہ لیے چڑیا کا کردار تو نبھا ہی سکتے ہیں تو آئیے اپنے حصّے کا چراغ جلائیں، اپنے حصّے کی شمع روشن کریں، اپنے حصّے کا دانہ چونچ میں لے کر وہ حق ادا کرنے نکلے جو بحثیت مسلمان ہم آج تک نہیں کر سکے اور یہ وقتی عملی قدم اٹھانے کے ساتھ ساتھ اپنے دین کو غالب کرنے کے لئے اپنا ایمان اس قدر مضبوط کریں کہ پھر کسی پھٹکارے ہوئے نامراد انسان کی اتنی ہمت نہ ہو سکے کہ وہ یمارے نبیکی شان میں گستاخی کا سوچ بھی سکےاور ایمان کو مضبوط کرنے کا اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہم فردی اور انفرادی مفادات سے نکلیںاورایک مسلمان بن کر اجتماعی مفاد کے بارے میں سوچیں۔ اورصرف باتوں میں ہی نہیں بلکہ دل میں بھی یہ عزم رکھیں کہ جہاں کبھی دوبارہ توہینِ رسالت جیسا بڑا اور عظیم گناہ سرزد ہوا وہاں اس کے مرتکب کرنے والے کوکیفرِ کردار تک پہنچانے کے لئے جان کا نذرانہ بھی دینا پڑا تو دے کراپنا دین اور ایمان بچائیں گے۔ یقین کیجیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کے لئے جان کا نذرانہ بھی ایک بہت چھوٹی، بہت ارزاں اور حقیر قربانی ہے مگر یہ قربانی ہمیں ہمارے اصل مقصد سے روشناس کروا سکتی ہے۔

تحریر : رملہ ثناء

اپنا تبصرہ بھیجیں