چیف جسٹس اطہرمن اللہ

احتساب عدالت میں ججزکے ساتھ سٹاف تک نہیں ،بدقسمتی سے سفارشی کلچر نے اس سسٹم کو تباہ کردیا ہے، چیف جسٹس اطہر من اللہ

اسلام آباد (گلف آن لائن)اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے پراسیکیوشن برانچ کی عدم تعمیر اور کچہری کے مسائل سے متعلق درخواست پر ریمارکس دیئے ہیں کہ احتساب عدالت میں ججزکے ساتھ سٹاف تک نہیں ،بدقسمتی سے سفارشی کلچر نے اس سسٹم کو تباہ کردیا ہے جبکہ وزیر اعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ احتساب بلا تفریق ہونا چاہیے سینیٹ ملک کا قابل احترام ادارہ ہے، نواز شریف کی وطن واپسی کے لیے برطانوی حکومت سے بات چیت جاری ہے۔جمعرات کو اسلام آباد میں پراسیکیوشن برانچ کی عدم تعمیر اور کچہری کے مسائل ،اسلام آباد شہر میں بڑھتے ہوئے جرائم اور غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کیس ،جوائنٹ ڈائریکٹر ایس ای سی پی ساجد گوندل کی بازیابی سے متعلق کیس کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کی۔وزیر اعظم کے مشیر داخلہ مرزا شہزاد اکبر عدالت میں پیش ہوئے جبکہ وفاق کی جانب سے ایڈوکیٹ جنرل نیاز اللہ نیازی اور ڈپٹی اٹارنی جنرل طیب شاہ ،اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور اسلام آباد بار کونسل کے صدور بھی عدالت میں پیش ہوئے ۔ عدالت نے مشیر داخلہ سے مکالمہ کیاکہ آپ نے بڑی تفصیلی رپورٹ جمع کرائی ہے، آپ خود کچہری میں رہتے رہے، کیا ابھی آپ کو کچری کا وزٹ کرایا گیا؟ ڈسٹرکٹ کورٹس میں جو ججز بیٹھتے ہیں یا وکیل کام کررہے ہیں وہ آپ نے خود دیکھے ہیں۔ ایڈووکیٹ جنرل نے کہاکہ اسلام بار کونسل اور اسلام آباد ہائی کورٹ بار کونسل کی جانب سے مشیر داخلہ سے میٹنگ ہوئی۔ شہزاد اکبر نے کہاکہ رپورٹ جمع کرنے کے بعد وزیراعظم عمران خان سے اس پر گفتگو ہوئی ہے۔

عدالت نے کہاکہ آپ احتساب کے معاملات دیکھتے ہیں ہمارے پاس اب تک صرف تین احتساب عدالتوں کے حالات دیکھے، اسلام آباد کے احتساب عدالت میں ججز کے ساتھ سٹاف تک نہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ بدقسمتی سے سفارشی کلچر نے اس سسٹم کو تباہ کردیا ہے۔ وکیل شعیب شاہین نے کہاکہ سپیشل کورٹس کی زمہ داری نہ وفاقی حکومت لیتی ہے اور نہ ہی صوبائی حکومت۔ عدالت نے کہاکہ سول اور سپیشل کورٹس کے پاس کام زیادہ ہے مگر سہولیات کا فقدان ہے،اس عدالت کو وزیر اعظم پر عدالتوں کے لئے کام کرنے پر اعتماد ہے۔عدالت نے مشیر داخلہ کو کچری اور سپیشل کورٹس کا دورہ کرنے کی ہدایت کی ۔ شہزاد اکبر نے کہاکہ وزیر قانون کورونا سے متاثر ہوئے تھے آج انکی واپسی ہوئی ہے، میں اس بار کا ممبر ہوں مجھے سب سے زیادہ فکر ہیں۔ عدالت نے کہاکہ گزشتہ ایک سال سے اس عدالت کی فوکس صرف ڈسٹرکٹ کورٹس پر رہی ہے، سپریم کورٹ کا حکم ہے کہ نیب کیسسز روزانہ سماعت کرے مگر کیسے ممکن ہے جب سہولیات ہی نہیں۔ عدالت نے کہاکہ سپیشل کورٹس کے ملازمین ججز کو سپورٹ نہیں کرتے کیونکہ وہ وزارت قانون کے ملازمین ہیں، سپیشل کورٹس کے ملازمین کو ججز کے ماتحت کرنے کی ضرورت ہے۔

چیف جسٹس نے وکیل سے مکالمہ کیا کہ وزیر اعظم کے مشیر یہاں ہے وہ جرمانہ بھی لگاسکتے ہیں۔ مشیر داخلہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ عدالت پہلے کہہ چکی ہے کہ ہم ایگزیکٹو معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتے۔ عدالت نے کہاکہ ضلعی کچری کیساتھ سپیشل کورٹس کے حالات بہت خراب ہیں۔ شہزاد اکبر مشیر داخلہ نے کہاکہ میری کوشش ہوگی کہ وزیر قانون کے ساتھ فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس کا دورہ کرسکوں۔ عدالت نے کہاکہ فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس کے ملازمین ہائی کورٹ کے ماتحت نہیں،انصاف کی فراہمی کے لئے ہر ممکن کوشش کی ضرورت ہیں۔ عدالت نے کہاکہ عدالت مشیر داخلہ سے فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس کے مسائل وزیر اعظم کے سامنے رکھنے کی امید کرتی ہے۔مشیر داخلہ شہزاد اکبر نے ہر ممکن تعاون اور سہولیات کی فراہمی کی یقین دہانی کرائی ۔ عدالت نے کہاکہ بے شک جوڈیشل کمپلیکس میں تعداد نہ بڑھائیں مگر انکو بہتر جگہ دے۔مشیر داخلہ شہزاد اکبر نے عدالت سے وزارت قانون و انصاف کو نوٹس کی استدعا کی ۔ عدالت نے کہاکہ آپ مشیر وزیر اعظم ہے آپ اس معاملے کو وزیر اعظم کے سامنے اٹھائے تو بہت ہے۔ عدالت نے شہزاد اکبر سے مکالمہ کیاکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے نئے بلڈنگ کے تعمیر میں وفاقی حکومت سے جلدی کروائے۔ صدر اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے کہاکہ وفاقی حکومت ہائی کورٹ لائرز کمپلیکس کے لیے بھی ٹائم فریم کرے۔ شہزا داکبر نے کہاکہ ہائی کورٹ کے نئے بلڈنگ میں جانے سے بار کی تمام ترجیحات کو دیکھیں گے۔ عدالت نے مشیر داخلہ سے استفسار کیاکہ پراسیکیوشن برانچ کے قیام کا کیا ہوا؟ مشیر داخلہ نے کہاکہ پراسیکیوشن برانچ میں قانونی رائے کی ضرورت تھی، وزیر قانون واپس آئے ہیں تو ان کے ساتھ ملکر بہت جلد اس پر کام کیا جائے گا۔ عدالت نے کہاکہ گزشتہ کئی سالوں سے اسلام آباد کرپٹ ترین حکومت ہیں، اس چودہ سو سکوائر مائلز کے علاقے پر ایس ایچ او سے لیکر اوپر قبضہ مافیا کا راج ہے، مس گورننس کی وجہ سے عدالتیں بھی کام نہیں کررہی۔ عدالت نے کہا کہ زمینوں پر قبضے میں ریونیو آفیشل، اور پولیس آفیشلز تک ملوث ہیں، پچھلے چالیس سالوں کی ڈیپ کرپشن سے شہری متاثر ہورہے ہیں، چودہ سو سکوائر مائلز میں قبضہ مافیا کے خلاف سخت ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔ وکیل شعیب شاہین نے کہاکہ نیت کے ساتھ عمل کی بھی ضرورت ہے، دو سالوں سے چیرمین سی ڈی اے نہیں ہے۔ عدالت نے کہاکہ چودہ سو سکوائر مائلز پر تو شہریوں کو برابر کے حقوق ہی نہیں ہے، اچھی بات ہے کہ حکومت نے کچری کے مسائل پر فوکس کیا ہوا ہے، ڈسٹرکٹ کورٹس پرائیویٹ کمرشل بلڈنگز ہیں، جن کی حالت زار بہت خراب ہوئی ہے۔ مشیر داخلہ شہزاد اکبر نے کہاکہ پولیس ریفارمز کے لیے قانون میں ترمیم کی ضرورت ہے۔ عدالت نے کہاکہ قانون میں ترمیم پارلیمنٹ کا کام ہے عدالت کا نہیں۔عدالت نے مشیر داخلہ شہزاد اکبر کو تحریری جواب جمع کرنے کی ہدایت کی ، عدالت نے کہاکہ فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس کے ایڈمنسٹریٹرو نظام کو ٹھیک کرے تو دیگر عدالتوں کی بھی ضرورت نہیں، فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس کے ایک جج صاحب نے کہا وہ ٹائپنگ خود کرتے ہیں۔مشیر داخلہ نے کہاکہ انشاء اللہ اس مسلے کے تہہ تک جلدی جائیں گے اور اسے حل کریں گے۔چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہاکہ اس چودہ سو سکوائر مائلز پر قانون کی بالادستی حکومت کے لئے سخت چیلنج ہے، عدالت نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر نے کہاکہ ہر شخص ہرادارہ قابل احترام ہے ،سلیم مانڈوی والا بھی قابل احترام ہیں،آپ کو قانون پسند نہیں تو قانون بدل لیں قانون میں ترمیم کی گنجائش ہے،شیخ رشید اور ہمارے درمیان اختیارات کی کوئی جنگ نہیں ،یہ عدالت اپنے فیصلوں میں مشیروں کے اختیارات کا تعین کر چکی ہے ۔ انہوںنے کہاکہ شیخ رشید وزیر ہیں ان کے پاس اختیارات ہیں ہم مشیر ہیں،احتساب بلا تفریق ہونا چاہیے کسی کے سٹیٹس کے مطابق نہیں۔ صحافی نے سوال کیاکہ کیا شیخ رشید کے ساتھ آپکے اختیارات کی جنگ چل رہی ہے ۔ انہوںنے جواب دیا کہ میرا کام وزیراعظم کو ایڈوائز کرناہے ،شیخ رشید صاحب وزیر داخلہ ہیں۔

انہوںنے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ ایڈوائزر کے بارے میں فیصلہ دے چکی ہے،وزیر اپنے ادارے کا خودمختار ہوتا ہے شیخ رشید سے کوئی اختیارات کی جنگ نہیں۔ صحافی نے سوال کیاکہ برٹش ائیر ویز کی فلائٹس اور نواز شریف کی وطن واپسی کا کیا لنک ہے ۔ شہزاد اکبر نے جواب دیاکہ نواز شریف کی وطن واپسی کے لیے برطانوی حکومت سے بات چل رہی ہے،واز شریف اور برٹش ائیر ویز کی فلائٹس کا کوئی لنک نہیں،نواز شریف کی ڈیپوٹیشن کا فیصلہ حکومت برطانیہ نے کرنا ہے جو ابھی تک نہیں کیا،ماضی میں بھی قیدیوں کے تبادلے سے متعلق معاہدے کے تحت کچھ لوگ برطانیہ سے پاکستان بھیجے گئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں