اسلام آباد (گلف آن لائن) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ طالبان جمہوری حکومت کااعلان کر دیا ہے ،امید ہے سیاسی صورتحال جلد ازجلد مستحکم ہوگی ، حالات بہتری کی طرف جائیں گے، واضح کرنا ہے افغان سرزمین کو کسی بھی ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے،ہمیں ایک متحد، خود مختاری اور جغرافیائی سالمیت کے حامل افغانستان کی مکمل حمایت کا اعادہ کرنا ہوگا ، ہمیں افغان کثیرالنسلی نوعیت کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے قومی مفاہمت کی اہمیت پر زور دینا ہوگا،اقوام متحدہ اور اس کے مختلف اداروں کے قائدانہ کردار میں انسانی نوعیت کی فوری امداد سے اعتماد سازی کے عمل کو نئی تقویت ملے گی،مالی وسائل تک افغانستان کی رسائی ملک کو مکمل انحطاط سے بچانے اور معاشی سرگرمیوں کی بحالی میں کلیدی ہوگی،افغانستان کی اس میں شمولیت سے فورم کے موثر ہونے اور افغانستان میں پائیدار امن واستحکام کے ہمارے مشترکہ مقاصد پر پیش رفت کو تقویت ملے گی،عالمی برادری کے لئے ہماری مشترکہ آواز پرامن، مستحکم اور خوش حال افغانستان کے پیغام کو تقویت دے گی ۔
بدھ کو یہاں افغانستان کی صورتحال پر وزارتِ خارجہ میں پاکستان کی میزبانی میں علاقائی وزرائے خارجہ ورچوئل کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں چین، ازبکستان، ترکمانستان ،تاجکستان اور ایران کے وزرائے خارجہ نے شرکت کی ۔وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے افغانستان کی صورتحال کے حوالے سے وزارتِ خارجہ میں منعقدہ ” علاقائی وزرائے خارجہ ورچوئل کانفرنس”سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ میں آپ سب کو افغانستان کے ہمسایوں کے پہلے وزارتی اجلاس میں شرکت پر خوش آمدید کہتا ہوں۔ انہوںنے کہاکہ میں دل کی گہرائیوں سے آپ کی تحسین کرتا ہوں کہ آپ سب نے افغانستان میں درپیش صورتحال پر علاقائی انداز فکر اختیار کرنے کی ہماری تجویز پر اپنے مثبت ردعمل کا اظہار کیا۔
انہوںنے کہاکہ میں نمائندگان وخصوصی نمائندگان کا بھی شکریہ ادا کرتاہوں جن کی بھرپور محنت سے آج کے اجلاس کے لئے مضبوط بنیاد فراہم ہوئی۔انہوںنے کہاکہ میں پرامید ہوں کہ آج کا ہمارا غوروخوض بارآور ثابت ہوگا۔ انہوںنے کہاکہ ہم افغانستان کی تاریخ کے ایک کلیدی و اہم مرحلے پر اجلاس میں شریک ہیں۔ انہوںنے کہاکہ گزشتہ چند ہفتوں میں ہونے والے واقعات نے ہمارے خطے کو عالمی توجہ کا مرکز بنادیا ہے۔ صورتحال کس کروٹ بیٹھتی ہے، اس کے افغانستان، ہمارے خطے اور عمومی طورپر دنیا کے لئے گہرے مضمرات ہیں۔
انہوںنے کہاکہ یہ واضح ہے کہ کسی کو بھی یہ گمان نہیں ہوسکا کہ حالات اس طرح تبدیل ہوں گے جس میں سکیورٹی فورسز کا یوں ریت کی دیوار ثابت ہونا اور افغانستان کی حکومت کا ختم ہونا شامل ہے،قبل ازیں ہونے والے تمام اندازے اور پیش گوئیاں غلط ثابت ہوئیں۔ انہوںنے کہاکہ غیرمتوقع اور اچانک وقوع پزیر ہونے والے ان واقعات سے قطع نظر اہمیت اس امر کی ہے کہ دہائیوں سے جاری خون خرابہ دوہرایا نہیں گیا۔ انہوںنے کہاکہ طویل تنازعے اور خانہ جنگی کا امکان بظاہر ٹل گیا ہے۔ انہوںنے کہاکہ بہت خدشہ تھا کہ مہاجرین کی بڑے پیمانے پر ہجرت ہوگی لیکن ایسا نہیں ہوا لیکن اس کے باوجود صورتحال پیچیدہ اور غیرمستحکم ہے،تاہم ایک بات یقینی ہے کہ ہم سب افغانستان میں تبدیل شدہ حقیقت کے ساتھ تگ ودو میں مصروف عمل ہے۔
انہوںنے کہاکہ طالبان نے عبوری حکومت کا اعلان کردیا ہے،ہم نے اس پیش رفت کو دیکھا ہے۔ انہوںنے کہاکہ ہمیں امید ہے کہ سیاسی صورتحال جلد ازجلد مستحکم ہوگی اور حالات بہتری کی طرف جائیں گے۔ انہوںنے کہاکہ نئی صورتحال متقاضی ہے کہ پرانی عینک ترک کر کے ، نئے تناظر کو دیکھا جائے، ایک حقیقت پسندانہ اور زمینی حقائق کے مطابق انداز فکر اپناتے ہوئے آگے بڑھا جائے۔انہوںنے کہاکہ ہماری کوششوں کا بنیادی محور ومرکز افغان عوام کی فلاح وبہبود اور بہتری ہونا چاہیے جو چالیس سال سے زائد عرصہ پر محیط تنازعے اور عدم استحکام سے بے پناہ متاثر ہوئے ہیں۔
انہوںنے کہاکہ 18 اگست 2021 کو میں نے چین کے سٹیٹ کونسلر اور وزیر خارجہ وینگ ای سے تفصیلی تبادلہ خیال کیا تھا۔ انہوں نے کہاکہ افغانستان میں رونما واقعات کے تمام چھ ہمسایہ ممالک کے لئے واضح مضمرات کے تناظر میں ہم نے قریبی رابطوں اور اشتراک پر اتفاق کیاتھا ،24 تا 26 اگست 2021 کو میں نے تاجکستان، ازبکستان، ترکمانستان اور ایران کا دورہ کیا۔ انہوںنے کہاکہ میں شکر گزار ہوں کہ ہم نے اس دورے کے دوران، تفصیلی اور بڑی نتیجہ خیز گفتگو کی۔انہوکںنے کہاکہ ہم نے آگے بڑھنے کے ایسے طریقہ کار کی تیاری پر اتفاق کیا جس سے مشترکہ مسائل کے حل اور اْن امکانات کو عملی شکل دینے میں مدد ملے جو حالیہ پیش ہائے رفت سے پیدا ہوئے ہیں۔
انہوںنے کہاکہ اب تک ہماری ہونے والی مشاورت سے درج ذیل امور سامنے آئے ہیں جن پر بدلتی صورتحال میں مشترک سوچ درکار ہے،سرحدوں کے ساتھ سلامتی کی صورتحال ،افغان سرزمین کو دہشت گرد تنظیموں کے ہاتھوں استعمال ہونے سے بچانا ،مہاجرین کی نئی لہر کے آنے کا امکان ،منشیات اور کثیرالقومی جرائم کی روک تھام،انتہا پسند عناصر کے پھیلائوکے انسداد،کورونا وبا سے متعلق مشکلات ومسائل،خطے کو جوڑنے کی راہ میں حائل رکاوٹیں شامل ہیں ،ہم بھی اتفاق کرتے ہیں کہ افغانستان میں امن قائم ہوجائے تو اس کے بے پناہ ثمرات ہیں جن میںمحفوظ سرحدیں، افغان سرزمین سے دہشت گردی کے خطرے کا خاتمہ ،افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے امکانات،معاشی استحکام اور عوام کے معیار زندگی میں بہتری، خطے کو جوڑنے کے منصوبہ جات کو تعبیر دینا،علاقائی معاشی یکجائی میں اضافہ شامل ہے ۔
انہوںنے کہاکہ پرامن، مستحکم، خوش حال اور باہم ایک دوسرے سے جْڑے خطے کی ہماری مشترکہ سوچ کو آگے بڑھانے کے لئے افغانستان کو اس قابل ہونا ہوگا کہ وہ آزمائش کی اس گھڑی سے نکلے اور اپنی بھرپور صلاحیت کو بروئے کار لائے۔ انہوںنے کہاکہ ہماری دانست میں کئی کلیدی نکات اور ترجیحات ہیں جو اس سمت میں ہماری کوششوں میں ہماری رہنمائی کرتی ہیںانہوںنے کہاکہ ، ہمیں افغان عوام کے ساتھ مکمل یک جہتی کرتے ہوئے ان کی حمایت کرنا چاہیے ،ہمیں ایک متحد، خود مختاری اور جغرافیائی سالمیت کے حامل افغانستان کی مکمل حمایت کا اعادہ کرنا ہوگا ۔انہوںنے کہاکہ ہمیں زور دینا ہوگا کہ افغان مسئلے کا افغان حل ہی ہونا چاہیے، ہمیں واضح کرنا ہے کہ افغان سرزمین کو کسی بھی ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے ہمیں افغان کثیرالنسلی نوعیت کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے قومی مفاہمت کی اہمیت پر زور دینا ہوگا۔ انہوںنے کہاکہ حالیہ پیش رفت کے تناظر میں کلیدی ترجیحات یہ شامل ہیں کہ انسانی نوعیت کا بحران جنم نہ لے جس سے افغانوں کی مشکلات مزید بڑھ جائیں،اسی قدر یہ بھی اہم ہے کہ افغانستان کو معاشی تباہی سے بچانے کے لئے اقدامات کئے جائیںانہوںنے کہاکہ اگر انسانی نوعیت کے بحران کو جنم لینے سے روکا جائے اور معاشی استحکام کو یقینی بنالیا جائے تو امن کی بنیاد مستحکم ہوسکتی ہے اور بڑے پیمانے پر مہاجرین کی یلغار سے بچا جاسکتا ہے۔ انہوںنے کہاکہ نہایت ناگزیر پہلو یہ بھی ہے کہ عالمی برادری خاص طورپر اس کلیدی ونازک مرحلے پر اپنے رابطے برقرار رکھے۔
انہوںنے کہاکہ سفارتی اور عالمی موجودگی کی تجدید سے افغان عوام کو ایک نیا یقین واعتماد میسر آئے گا۔ انہوںنے کہاکہ اقوام متحدہ اور اس کے مختلف اداروں کے قائدانہ کردار میں انسانی نوعیت کی فوری امداد سے اعتماد سازی کے عمل کو نئی تقویت ملے گی۔ انہوںنے کہاکہ مالی وسائل تک افغانستان کی رسائی ملک کو مکمل انحطاط سے بچانے اور معاشی سرگرمیوں کی بحالی میں کلیدی ہوگی۔ انہوںنے کہاکہ مجھے شک نہیں کہ ہمارے آج کے غوروخوض سے افغانستان میں صورتحال کے بے شمار پہلووں پر ہماری مشترکہ سوچ کو آگے بڑھانے میں مدد ملے گی۔ انہوںنے کہاکہ ہماری تجویز ہوگی کہ ہمسایہ ممالک کے اس اہم پلیٹ فارم کو مستقل اور باضابطہ مشاورتی نظام میں بدل دیاجائے۔
انہوںنے کہاکہ میری یہ بھی تجویز ہوگی کہ مستقبل میں افغانستان کو اس میں مدعو کرنے پر بھی سوچا جاسکتا ہے۔ انہوںنے کہاکہ افغانستان کی اس میں شمولیت سے فورم کے موثر ہونے اور افغانستان میں پائیدار امن واستحکام کے ہمارے مشترکہ مقاصد پر پیش رفت کو تقویت ملے گی۔ انہوںنے کہاکہ افغانستان کے استحکام میں ہمسایہ ممالک کا براہ راست مفاد ہے۔ انہوںنے کہاکہ عالمی برادری کے لئے ہماری مشترکہ آواز پرامن، مستحکم اور خوش حال افغانستان کے پیغام کو تقویت دے گی جو نہ صرف داخلی طورپر پرامن ہو بلکہ اپنے ہمسایوں کے ساتھ بھی امن وآشتی کا حامل ہو۔ میں آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔