جسٹس گلزار احمد

کیسز میں ججز یا وکلاء کی نہیں بلکہ مقدمات کی ہار جیت ہوتی ہے ،وکلاء اور عدالت ایک ہی ادارے کا حصہ ہیں ‘ جسٹس گلزار احمد

لاہور( گلف آن لائن) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ عدالتیں اور وکلاء ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں ،کیسز میں ججز اور وکلاء کی ہار جیت نہیں ہوتی بلکہ مقدمات کی ہار جیت ہوتی ہے ،وکلاء اور عدالت ایک ہی ادارے کا حصہ ہیں ، وکلاء جو توقع عدالت سے رکھتے ہیں عدالت بھی اسی طرح وکلاء سے توقع رکھتی ہے، وکلاء کی فلاح و بہبود کیلئے جو کچھ ممکن ہوا وہ کروں گا اور اس کے لئے متعلقہ اداروں سے بھی بات کروں گا۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے پنجاب بار کونسل کے زیر اہتمام مقامی ہوٹل میں وکلاء کی فلاح و بہبود اور ان کے حقوق کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ تقریب میں لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس محمد امیر بھٹی سمیت فاضل ججز صاحبان ،پنجاب بار کونسل کے وائس چیئرمین فرحان شہزاد ، چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی حاجی افضل دھرالا،احسن بھون،مختلف بارز کے عہدیداروں اور ممبران نے شرکت کی ۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ یہ بات واضح ہے کہ وکلاء کے بغیر عدالت اور عدالت کے بغیر وکلاء نہیں چل سکتے ۔

یہاں بعض ججز کے رویے کی بات کی گئی ہے اور کہاگیاہے کہ ججزصاحبان بات سننے سے پہلے ہی سوال شروع کر دیتے ہیں،اسی طرح ہماری بھی وکلاء سے کافی شکایات ہوتی ہیں ،انہیں فائل میں جو کیس ہے اس کے مطابق تیاری کر کے آنا چاہیے لیکن وہ نہیں کرتے ، عدالت کی کوشش کرتی ہے کہ جو فائل میں کیس ہے وکیل اس پرآ جائے ،یہ کشمکش ہے اورجاری رہے گی لیکن ایسی کوئی بات نہیں کہ جس سے کوئی ناراض ہو ، عدالت بھی خوش رہتی ہے او رآپ بھی خوش رہتے ہیں ، اصل مقصد یہ ہے کہ عدالت کی طرف سے فیصلہ صحیح ہونا چاہیے ،جو بھی مقدمہ عدالت کے سامنے آئے اس کا فیصلہ صحیح سے صحیح کیا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب بار کونسل کے وکلاء کے حقوق کے حوالے سے مسودہ پڑھا ہے اور اس پر غوروخوض کیا ہے، اس پر میرے ذہن میں بھی کچھ سوالات آئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ میں دس سالہ سپریم کورٹ میںبیٹھا ہوں ، نئے حالات کے بارے میں پتہ چلتا رہتا ہے ۔یہ درست ہے کہ وکلاء برادری کو سپورٹ کی ضرورت ہے،وکلاء کی کونسلیں اور ایسوسی ایشنز اس میں کردار ادا کر سکتیں ہیں،ایوانوں میں جو وکلاء نمائندے بیٹھے ہیںانہیں بھی جو جائز درکار سہولتیں ہیں اس حوالے سے سپورٹ دی جانی چاہیے ۔

انہوں نے کہا کہ کورونا کے حالات کی وجہ سے وکلاء کو مالی مشکلات کا سامنا رہا ہے اور میں اس سے آگاہ ہوں ۔ پنجاب بار کونسل کے مسودے میںجو نکات شامل کئے گئے ہیں متعلقہ اداروں کو ان پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے اور ان کو حل کرنا چاہیے ، وکلاء کو جہاں تک ہوسکے سہولتیں پہنچانی چاہئیں۔وکلاء کی ہائوسنگ سوسائٹی کے معاملے میں پیشرفت ہوئی ہے، سپریم کورٹ بار کے ممبران کو پلاٹ الاٹ ہو جائیں گے اور وہ اسلام آباد میں گھر تعمیر کرے میں کامیاب ہو جائیں گے،پاکستان بار کونسل ، سپریم کورٹ بار اپنے ممبر ان کی مدد کر سکتی ہیں اور انہیںکرنی بھی چاہئیں تاکہ اپنا گھر بنانے میں کامیاب ہو جائیں ۔انہوںنے کہا کہ میری بارز کے عہدیداروں اور وکلاء سے ہر ہفتے ایک یا دو میٹنگز ہوتی ہیں، ان سے اعلیٰ عدلیہ اور ماتحت کے بارے میں مشاورت ہوتی ہے ،مسائل کے بارے میں بات ہوتی رہی ہے اور ہم ان کا حل بھی نکالتے ہیں ، عدلیہ کے مسائل کے حل کے لئے مستقل اقدامات کرتے رہتے ہیں، وکلاء کے لئے جو بھی ہو سکے گا میں کردار کروں گا اور اس حوالے سے متعلقہ اداروں سے بھی بات کروں گا۔

انہوں نے کہا کہ یہاں ارجنٹ کیسز کا سوال اٹھایاگیا ہے ،میں نے اس حوالے سے مختلف کیٹگریز بنائی ہوئی ہیں جو ترجیحی بنیادوں پر سننے والے کیسز ہوتے ہیں انہیں فوری لگاتا ہوں اور اسی طرح باقی کیٹگریز ہیں، جس کیس میں ایمر جنسی نظر نہیں آتی اسے اسی ترتیب سے لگایا جاتا ہے ۔ہمارے ساتھ بھی مسائل ہیں، بعض اوقات ججزصاحبان بیمار ہوتے ہیں ، ان کی دستیابی نہیں ہوتی اس لئے بعض اوقات مشکل ہوتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہم نے کبھی بھی بار زکے پروگرام میں شرکت سے انکار نہیں کیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں