اسلام آباد (گلف آن لائن) وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب و داخلہ بیرسٹر شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ اسحاق ڈار میں تھوڑی سی بھی ہمت ہے تو میرے خلاف دعویٰ دائر کریں،اسحاق ڈار الطاف حسین کی طرح برطانیہ میں سیاسی پناہ میں رہ رہے ہیں، اسحاق ڈار بھی نواز شریف کی طرح وزٹ ویزے پر برطانیہ گئے تھے، تین سال ہو گئے ہیں واپس نہیں آ رہے، مفرور شخص برطانیہ میں بیٹھا ہے ،یہاں سینیٹر ہے جو ہمارے نظام انصاف کے ساتھ ایک مذاق ہے، اسحاق ڈار سے ہرگز کوئی معافی نہیں مانگی۔
ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ جھوٹ بولنا شریف خاندان کی عادت بن گئی ہے، کل مریم کہہ رہی تھیں کہ شہباز شریف انٹرنیشنل صادق اور امین بن گئے ہیں، میرا خیال تھا کہ شہباز شریف احتساب عدالت کے سامنے پیش ہو کر فیصلہ پیش کریں گے لیکن انہوں نے احتساب عدالت سے کہا کہ مجھے اسلام آباد جانا ہے۔ بیرسٹر شہزاد اکبر نے کہا کہ فنانشل مانیٹرنگ یونٹ (ایف ایم او) کا کام ہے کہ کسی اکائونٹ میں پیسے آئیں، مشتبہ ٹرانزیکشنز اور منی لانڈرنگ کے شبہ میں متعلقہ اداروں کو رپورٹ کرے، اسحاق ڈار جب وزیر خزانہ تھے تو ان کے دور میں شریف خاندان کی جعلی ٹی ٹیز ٹرانزیکشنز اور منی لانڈرنگ ہوئی جو عدالتی دستاویزات کا حصہ ہیں، رمضان شوگر ملز، دیگر ٹرانزیکشنز کی تاریخیں دیکھیں وہ اسحاق ڈار کے دور کی ہیں، ایف ایم او نے اس وقت کیوں رپورٹ نہیں کیا؟۔ انہوں نے کہا کہ اسحاق ڈار برطانیہ سے ایس ای سی پی کو جو لیٹرز آتے تھے ان کو دبا دیتے تھے اور انہیں مزید تحقیقات سے روک دیتے تھے، ان لوگوں نے قوم کے ساتھ اتنا بڑا مذاق کیا ہے، میں تو حیران ہوں کہ یہ کیسے جھوٹ بول لیتے ہیں، ایک شخص جو بحیثیت وزیر خزانہ ایک ادارے کو لیڈ کرتا رہا اور اب کہتا ہے کہ اس کا ایف ایم او سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
مشیر احتساب نے کہا کہ تحریک انصاف حکومت کے اقتدار میں آنے سے پہلے اسحاق ڈار کے خلاف منی لانڈرنگ سے متعلق ریفرنسز دائر ہو چکے تھے، منی لانڈرنگ ریفرنسز میں ان کے خلاف کئی والیم ہیں، ان کے خلاف کیسز کے ثبوت دستاویزات کی صورت میں موجود ہیں، عدالتی احکامات پر پاکستان کی اسحاق ڈار کی تمام جائیدادیں ضبط ہو چکی ہیں، پاکستانی قانون کے مطابق ایک مفرور شخص کو اس بات کا حق بھی نہیں کہ وہ عدالت کے سامنے پیش ہو کر اپنا مدعا بیان کر سکے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 2019میں برطانوی حکام کے ساتھ اسحاق ڈار کو واپس بھیجنے کے حوالے سے ایم او یو پر دستخط کئے تھے، میری اطلاع کے مطابق اسحاق ڈار نے برطانیہ میں سیاسی پناہ کیلئے درخواست دے رکھی تھی جو منظور ہو گئی ہے، صحافی ان سے سوال پوچھ لیں کہ وہ برطانیہ میں کس قانونی حیثیت سے رہ رہے ہیں۔ ایک اور سوال کے جواب میں بیرسٹر شہزاد اکبر نے کہا کہ اے ایف او پر خبر پر قانونی کارروائی کیلئے دستاویزات تیار کر رہا ہوں، تیار ہو جائیں تو کیس فائل کروں گا، میرے خلاف من گھڑت خبر چلائی گئی کارروائی کا حق رکھتا ہوں، معافی مانگ لیں کیس نہیں کروں گا۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یو اے ای میں قانون ہے کہ دس ہزار سے زائد تنخواہ بھی بینک ٹو بینک آتی ہے۔