گندم کا پیداواری

کھاد کی بلیک مارکیٹنگ سے گندم کا پیداواری ہدف حاصل کرنے میں ناکامی ہوئی،میاں زاہد حسین

کراچی (گلف آن لائن) نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ کھاد کی قیمت میں اضافہ اور اسکی بلیک مارکیٹنگ کی وجہ سے گندم کے پیداواری ہدف میں بیس لاکھ ٹن سے زیادہ کمی آئی ہے جس سے فوڈ سیکورٹی کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ گندم کی درآمد میں تاخیر کر کے منافع خور وں کو آٹے کی قیمت بڑھا کر عوام کو لوٹنے کا موقع نہ دیا جائے۔ میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ گندم کا پیداواری ہدف 28.9 ملین ٹن رکھا گیا تھا مگر اسکی پیداوار 26.8 ملین ٹن رہی ہے ۔

گندم کے زیر کاشت رقبے کا اندازہ 9.2 ملین ہیکٹر لگایا گیا تھا مگر کاشتکاروں نے 8.99 ملین ہیکٹر پر گندم کاشت کی جبکہ موسمی حالات نے بھی اسکی پیداوار کو کم کیا۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ دنیا میں گندم کا سب سے بڑا درآمدکنندہ مصر ہے جو پڑوسی ملک بھارت سے گندم کی خریداری کے لئے مذاکرات کر رہا ہے مگر ہم وقت ضائع کر رہے ہیں جس سے منافع خوروں اور زخیرہ اندوزوں کو ایک بار پھر لوٹ مار کرنے کا موقع ملے گا۔ اگر بھارت سے گندم درآمد کی جاتی ہے تو اسکی کم قیمت ادا کرنا ہو گی جبکہ پاکستان بھی آلو، ٹماٹر ، کھجور اور دیگر اشیاء کی اضافی مقدار بھارت برآمد کر کے قیمتیں مستحکم رکھ سکے گا جس سے کاشتکاروں کو نقصان سے بچایا جا سکے گا۔

پاکستان اور بھارت کا جب تک ایک دوسرے پر دارومدار نہیں بڑھے گا امن قائم نہیں ہو سکتا۔ میاں زاہد حسین نے مذید کہا کہ سیاسی گرما گرمی سے جہاں معیشت اور عوام متاثر ہو رہے ہیں وہیں بجٹ سازی کا عمل بھی مشکلات سے دوچار ہے۔ شہرت کی خاطر آئی ایم ایف کے ساتھ کئے گئے معاہدے کی خلاف ورزی کرنے کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ معاہدے کی خلاف ورزی کی وجہ سے آئی ایم ایف سے مذید قرضہ ملنے یا نہ ملنے کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا جو بجٹ سازی کی راہ میں حائل بڑی رکاوٹ ہے ۔ امسال پاکستان کی بیرونی فنانسنگ کی ضروریات 30.4 ارب ڈالر رہی ہیں جواگلے سال 35 ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گی جو جی ڈی پی کے دس فیصد سے زیادہ ہو گا۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ جب تک زرعی آمدنی پر اتنا ہی ٹیکس نہ لگایا جائے جتنا کہ تنخواہ دار طبقہ ادا کرتا ہے ملک نا کبھیخوشحال ہو سکتا ہے اورنہ ہی قرضوں سے چھٹکارا حاصل کر سکتا ہے۔ اس کے لئے زرعی ٹیکس کو مرکزی حکومت کے تحت لانا بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں