شاہ محمود قریشی

شاہ محمود قریشی کی اپوزیشن کو سفیر کیساتھ اِن کیمرہ اجلاس کی دعوت

اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپوزیشن کو سفیر کے ساتھ ان کیمرہ اجلا س کی دعوت دیتے ہوئے کہاہے کہ آئیے ان کیمرہ سیشن کرتے ہیں ، سفیر کو بلاتے ہیں ، ان سے پوچھتے ہیں،دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔ ہفتہ کو شاہ محمود قریشی نے کہاکہ میں اپنی جماعت کی طرف سے کہنا چاہتا ہوں کہ آئین میں عدم اعتماد کی تحریک کا حق موجود ہے۔انہوںنے کہاکہ میں بارہا کہہ چکا ہوں کہ اس تحریک کو پیش کرنا اپوزیشن کا حق ہے اور اس کا دفاع کرنا میرا فرض ہے، ہم آئینی سیاسی اور جمہوری انداز میں مقابلہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں ایک اور چیز ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں اور قوم کو گواہ بنانا چاہتا ہوں کہ آئین شکنی مطمع نظر تھا نہ ہوگا، آئین کا احترام ہم سب پر لازم ہے اور وزیر اعظم پاکستان نے کہا کہ وہ دل سے مایوس ہیں تاہم سپریم کورٹ کے فیصلے پر سر تسلیم خرم کرتے ہیں۔وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ آئین شکنی سے بھری ہوئی ہے، میں حالیہ آئین شکنی کا حوالہ دینا چاہوں گا، قوم اس بات کی گواہ ہے کہ 12 اکتوبر 1999 میں آئین شکنی ہوئی، قوم اس بات کی گواہ ہے جب اعلیٰ عدلیہ کے سامنے جب وہ کیس گیا تو نہ صرف جسٹیفکیشن مانگی گئی بلکہ آئین میں ترمیم کی اجازت بھی دی گئی۔

انہوںنے کہاکہ مولانا فضل الرحمن، بلاول بھٹو زرداری صاحب نے عدلیہ کے فیصلے سے قبل بیان دیا کہ کوئی نظریہ ضرورت کا فیصلہ ہم قبول نہیں کریں گے۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ میں پاکستان تحریک انصاف کا مؤقف ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں، میرا وزیر اعظم کہتا ہے کہ مایوس ہوں تاہم عدلیہ کا احترام کروں گا۔

انہوں نے کہا کہ عدالت نے حکم دیا ہے کہ اجلاس جاری رہے گا اور تب تک ختم نہیں ہوگا جب تک کارروائی مکمل نہیں ہوجاتی ہے۔انہوںنے کہاکہ اتوار کو ہونے والے اجلاس اور وزیر اعظم عمران خان کے اسمبلی توڑنے کی تجویز کا عدالت نے ازخود نوٹس لیا اور اسپیکر کی رولنگ کو مسترد کردیا تھا۔انہوں نے کہا کہ اسمبلی تحلیل کرنے کا مطالبہ ہماری اپوزیشن پونے 4 سال سے کر رہی ہے اور نئے انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہے، جس کے پیش نظر وزیر اعظم نے فیصلہ کیا کہ عوام کے پاس چلتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ عوام پاکستان مستقبل کن ہاتھوں میں دیکھنا چاہتے ہیں۔

انہوںنے کہاکہ ہم نے عدلیہ کے فیصلے کو تسلیم کرلیا ہے تاہم اپوزیشن عدلیہ میں کیوں گئی، اس کا ایک پس منظر ہے، یہاں جب ڈپٹی اسپیکر اجلاس کر رہے تھے اس میں آئینی کارروائی سے انکار نہیں کیا تھا۔شاہ محمود قریشی نے کہاکہ ڈپٹی اسپیکر نے کہا کہ ایک نئی صورتحال میرے سامنے آئی ہے جہاں ایک بیرونی سازش ہورہی ہے اور اس کی تحقیقات ہونا ضروری ہے، قومی سلامتی کمیٹی کا فورم ایک اعلیٰ ترین فورم ہے، اس میں مراسلے کی بازگشت ہے۔

انہوںنے کہاکہ جب قومی سلامتی کمیٹی نے اس مراسلے کو دیکھا تو اس حل پر پہنچی کہ یہ سنگین اور حساس مسئلہ ہے اور احکامات جاری کیے۔انہوں نے کہا کہ پہلا یہ کہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کے سیاسی معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ سلامتی کمیٹی نے دفتر خارجہ کو حکم دیا کہ اسلام آباد اور واشنگٹن میں ڈیمارش کرو اور دفتر خارجہ یہی کرتا ہے، قومی سلامتی کمیٹی نے دوسرا فیصلہ یہ دیا کہ یہ فیصلہ قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کے سامنے رکھا جائے تاکہ وہ بات کی باریکی تک جائیں۔اس دور ان شاہ محمود قریشی کی تقریر کے دوران اپوزیشن بینچز سے آوازیں آنے لگیں اور شور شرابہ ہوا جس پر اسپیکر قومی اسمبلی نے اجلاس ساڑھے 12 بجے تک ملتوی کردیا تاہم اجلاس میں 2 گھنٹے کے وقفے کے بعد انہوں نے اپنی تقریر دوبارہ شروع کی اور کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے اپنی رولنگ میں ووٹنگ سے انکار نہیں کیا تھا بلکہ کہا تھا کہ نئی صورتحال ہیجسے سامنے رکھتے ہوئے ہمیں آگے بڑھنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ہارس ٹریڈنگ کا ماحول پیدا کیا وفاداریاں بدلنے کی کوشش کی گئی، ضمیر فروشی کا بازار لگا، ٹکٹوں کے وعدے، سنہری خواب دکھائے گئے، سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ کیا یہ کوشش آئینی تھی؟انہوں نے کہا کہ وہ قوتیں جنہوں نے آئین کے تحفظ کی قسم اٹھائی ہے وہ نہیں دیکھ رہیں کہ بازا لگا ہے، بولیاں لگ رہی ہیں، اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا جارہا ہے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد سے قبل بھی پی ٹی آئی اس بات کا تقاضہ کرچکی ہے ہمیں روش کے خلاف رکاوٹ ڈالنی ہوگی، اس سے قبل سینیٹ میں جو ہوا لیکن اس کے خلاف درخواست آج بھی زیر التوا پڑی ہے، اگر ہم نے اس چیز کے آگے بند باندھا ہوتا تو آج اس چیز سے دوچار نہیں ہوتے۔انہوں نے کہا کہ آج ہم یہاں ہیں، کل نہیں ہوں گے ہم سے بڑی بڑی ہستیاں یہاں سیبگزری ہیں، انسان فانی ہے، ایک لمحے کا مجھے پتا نہیں کہ اگلا سانس ہوگا یا نہیں، بڑے بڑے نامور لیڈر اس قوم نے پیدا کیے جو آج منوں مٹی تلے سورہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تاریخ گواہ ہوگی، حقائق کبھی چھپتے نہیں ہیں دبائے جاسکتے ہیں لیکن ایک وقت آئے گا کہ تاریخ انہیں بے نقاب کرے گی، جنہوں نے یہ سارا ناٹک رچایا انہیں بے نقاب کرے گی۔انہوں نے کہا کہ مؤرخ کا قلم بڑا ظالم ہے کسی کو نہیں بخشتا، جس طرح اس نے چیزیں قلمبند کی ہیں وہ سامنے آجائیں گی۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ میں اس بات کو ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں کہ جب ماسکو کے دورے کا فیصلہ کیا گیا اس کا یوکرین کی صورتحال سے کوئی تعلق نہیں تھا، 2 ماہ سے یہ سلسلہ جاری تھا بالکل آخر دعوت آئی اور وزیراعظم نے جانے کا فیصلہ کیا۔انہوں نے بتایا کہ اس دورے سے قبل مشاورت کی گئی، دیکھا گیا کہ اس کا کیا فائدہ ہوگا، اس کے پسِ پردہ پاکستان کی بہتری تھی، اس وقت یوکرین کی صورتحال سامنے نہیں آئی تھی اور فوجی چڑھائی نہیں ہوئی تھی۔

انہوںنے کہاکہ میں ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں کہ ہم نے مشاورت کے لیے سابقہ سیکریٹریز خارجہ، سفارتکاروں، دانشوروں اور میڈیا کو بلایا اور بات کی کہ جائیں تو کیا فائدہ کیا نقصان ہوگا پھر تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت سے فیصلہ کیا گیا کہ اس باہمی دورے کو جاری رکھنا پاکستان کے مفاد میں ہے۔انہوںنے کہاکہ پاکستان چھوٹا صحیح ایک خودمختار ملک ہے، آپ شاید اپنی خود مختاری پر سمجھوتہ کر کے غلامی کا طوق قبول کرنا چاہتے ہوں، ہم نہیں چاہتے۔وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکا کے مشیر قومی سلامتی جیک سولیوین نے پاکستانی مشیر قومی سلامتی کو کال کر واضح طور پر کہا کہ دورے پر نہیں جائیں۔انہوں نے کہا کہ مجھے بتایا جائے کہ کہاں ہوتا ہے کہ ایک خود مختار ملک کو اس کے باہمی دورے سے روکا جائے، کون سی خودمختار اور خوددار قوم یہ قبول کرتی ہے۔

شاہ محود قریشی نے کہا کہ ساڑھے 3 سال یہ لوگ کہتے رہے کہ انتخابات کرائو، اب عمران خان کہہ رہے ہیں کہ چلو عوام کے سامنے دیکھتے ہیں وہ کیا فیصلہ کرتے ہیں، اپنا اپنا موقف پیش کریں گے، اسی کی جمہوریت کہتے ہیں، نوٹ، ووٹ اور کھوٹ کے درمیان فیصلہ عوام کرلیں گے۔انہوں نے کہا کہ میں اپیل کرتا ہوں کہ اس ملک کو آئینی بحران کی جانب نہ دھکیلیں، اس کا واحد حل تازہ انتخابات ہیں، آپ عوام کے سامنے جانے سے گھبرا کیوں رہے ہیں؟انہوں نے کہا کہ پاکستانی عوام کو سیاسی بصیرت پرخراج تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے 27 مارچ کے جلسے میں بھرپور شرکت کی، غداری کون کررہا ہے عوام سے یہ فیصلہ عوام ہیں کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ میں آخر میں قوم سے مخاطب ہوتے ہوئے کہنا چاہتا ہوں کہ آج آزمائش کا وقت ہے، ایک طبقہ پاکستان کے مفاد کو سودا کرنا چاہتا ہے، تمام سیاسی قوتیں ایک طرف ہیں اور تنہا عمران خان ایک طرف ہے، یہ بغض کا اتحاد ہے جن میں کچھ بھی یکساں نہیں ہیں، یہ تو ایک دوسرے کے پیٹ چاک کرنے کی بات کرتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ اب قوم کو دیکھنا ہے کہ ہم نے کس سمت جانا ہے اور سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ہے، میرے سینے میں بہت راز ہیں ابھی نہ کھولیں، پاکستان کا ووٹر ایک اییک کو پہچان رہا ہے، ان شا اللہ میری جماعت اور میرا قائد پاکستان کے آئین، نظریے، جغرافیے اور مفادات کا تحفظ کریں گے، اقتدار آتا ہو تو آئے جاتا ہو تو جائے، پاکستان کے مفاد کا سودا نہیں کریں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں