شاہ محمود قریشی

پاکستان کی تاریخ آئین شکنی سے بھری پڑی ہے، شاہ محمود قریشی

اسلام آباد (گلف آن لائن) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہاہے کہ پاکستان کی تاریخ آئین شکنی سے بھری پڑی ہے، تحریک کا دفاع کر نا ہمارا حق ہے ، آئین کا احترام ہم سب پر لازم ہے ،بوجھل دل کے ساتھ سپریم کورٹ کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہیں، مولانا فضل الرحمان اور شہباز شریف نے بیانات دیے کہ کوئی نظریہ ضرورت قبول نہیں کریں گے،قومی سلامتی کمیٹی نے مراسلہ دیکھ کر اسے سنگین مسئلہ قرار دیا اور پھر دفتر خارجہ امریکی سفیر کو ڈی مارش کرنے کا حکم دیا۔

اسپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت ہونے والے قومی اجلاس کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا جس کے بعد نعت رسول مقبول ۖ پڑھی گئی اور پھر قومی ترانہ پڑھا گیا۔اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی تقریر پر جواب دیتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ تحریک کو پیش کرنا اپوزیشن کا حق اور اس کا دفاع کرنا ہمارا حق ہے، قوم کو گواہ بنانا چاہتا ہوں کہ آئین کا احترام ہم سب پر لازم ہے۔وزیراعظم نے قوم سے خطاب میں کہا کہ وہ عدالتی فیصلے سے مایوس لیکن بوجھل دل کے ساتھ فیصلے کو تسلیم کرتے ہیں، پاکستان کی تاریخ آئین شکنی سے بھری پڑی ہے، 12 اکتوبر 1999 کو آئین شکنی ہوئی اور اسی اعلیٰ عدلیہ نے ایک آمر کو آئین میں ترمیم کی اجازت دی جس کی تاریخ بھی گواہ ہے۔شاہ محمود قریشی نے کہاکہ مولانا فضل الرحمان اور شہباز شریف نے بیانات دیے کہ کوئی نظریہ ضرورت قبول نہیں کریں گے، میں خوش ہوں کہ ہماری جمہوریت پروان چڑھی ہے اور کوئی نظریہ ضرورت قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔

انہوںنے کہاکہ عدالتی احکامات کی پاسداری کیلئے خدمت میں حاضر ہوئے ہیں، 3 اپریل کو جو کچھ ہوا اسے دہرانا نہیں چاہتا لیکن عدلیہ نے اس کا نوٹس لیا، اتوار کو دروازے کھولے گئے، کارروائی کا آغاز ہوا اور متفقہ طور پر رولنگ کو مسترد کیا۔وزیر خارجہ نے اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ازخود نوٹس کیوں لیا گیا؟ اس کا ایک پس منظر ہے، قاسم سوری نے آئینی عمل سے انکار نہیں کیا، انہوں نے کہا کہ ایک نئی صورتحال آئی ہے، بیرون سازش کی بات ہو رہی ہے اس لیے اجلاس کا غیرمعینہ مدت تک ملتوی ہونا ضروری ہے۔

مبینہ دھمکی آمیز پیغام کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وزیر خارجہ نیغ کہاکہ قومی سلامتی کمیٹی نے مراسلہ دیکھ کر اسے سنگین مسئلہ قرار دیا اور پھر دفتر خارجہ امریکی سفیر کو ڈی مارش کرنے کا حکم دیا۔شاہ محمود قریشی نے دھمکی آمیز مراسلے پر بات شروع کی تو اپوزیشن کی جانب سے احتجاج کیا گیا اور کہا کہ وزیر خارجہ پھر اس مراسلے سے متعلق بات کر رہے ہیں، ایجنڈے میں صرف تحریک عدم اعتماد شامل ہے۔اس موقرع پر اپوزیشن ارکان شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کی سربراہی میں اپنی نشستوں پرکھڑے ہوئے اور انہوں نے اسپیکر سے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کا مطالبہ شروع کیا۔ اپوزیشن کے شور شرابے کے بعد حکومتی بینچز سے بھی نعرے بازی شروع ہوئی اور اسی دوران اسپیکر قومی اسمبلی نے اجلاس ساڑھے 12 بجے تک ملتوی کر دیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں