تجارتی معیشت

تجارتی معیشت کبھی بھی قرضوں کے بغیر نہیں چل سکتی،میاں زاہد حسین

کراچی (گلف آن لائن)نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ صنعتی شعبہ کو مسلسل نظر انداز کرنے اور غیر پیداواری شعبوں کی مسلسل سرپرستی سے ہماری معیشت پیداواری نہیںرہی بلکہ تجارتی معیشت بن چکی ہے اور تجارتی معیشت کبھی بھی قرضوں کے بغیر نہیں چل سکتی۔ آمدہ بجٹ میں صنعتی شعبہ اور ایس ایم ایز کو ریلیف فراہم کیا جائے تاکہ صنعتی عمل تیز ہو جس سے پیداوار، برآمدات، روزگار اور محاصل میں اضافہ ہو گا۔ معاشی اصلاحات کی قیمت صرف غریبوں سے نہ لی جائے جبکہ صاحب ثروت افراد پر بھی بوجھ ڈالا جائے کیونکہ یہ خیال عام ہو رہا ہے کہ اصلاحات کے نام پر غریب کوہی سزا دی جاتی ہے۔ میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ملکی آبادی اخراجات اور درآمدات مسلسل بڑھ رہی ہیں جبکہ برآمدات کا حال پتلا ہے۔ اشرافیہ کو ملنے والی سبسڈی ومراعات اورانکی سیکورٹی پر خرچ ہونے والے سرمائے کا حجم گردشی قرضہ سے زیادہ ہے۔

ناکام سرکاری کمپنیوں کے دو لاکھ ملازمین کی نوکریاں بحال رکھنے کے لئے سالانہ چھ سو ارب روپے خرچ کئے جا رہے ہیں جس کی سزا بائیس کروڑ عوام کو ملتی ہے۔ ملک کا بیڑا غرق اشرافیہ نے کیا ہے مگر سزا ہمیشہ غریب عوام کو دی جاتی ہے اب یہ سلسلہ ہمیشہ کے لئے بند ہو جانا چائیے۔ عوام پٹرول کی قیمت میں چالیس فیصد اضافہ بجلی کے نرخ میں سینتالیس فیصد اضافہ اور گیس ٹیرف میں پینتالیس فیصد اضافہ اسی وقت قبول کریں گے جبکہ انھیں قربانی دینے والوں کی صفوں میں اشرافیہ بھی نظر آئے گی جو سالہا سال سے ملکی وسائل کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں ۔ اس اضافہ سے بائیس کروڑ عوام متاثر جبکہ لاکھوں خطہ غربت سے نیچے چلے جائیں گے۔ مراعات یافتہ طبقہ سے سادگی اختیار کرنے کی اپیل کرنا اور ان سے اس پر عمل درآمد کی توقع خود فریبی ہے۔ اشرافیہ از خود اخراجات کم نہیں کرے گی بلکہ ان سے عمل کروانا پڑے گا ورنہ عوامی غیض و غصب کوئی بھی راستہ اختیار کر سکتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں