احسن اقبال

پاکستان عالمی برادری اور مقامی فریقین کیساتھ ملکر اپنے پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کیلئے کوشاں ہے،احسن اقبال

نیویارک (گلف آن لائن)وفاقی وزیر منصوبہ بندی ترقی وخصوصی اقدامات احسن اقبال نے پاکستان کا رضاکارانہ قومی جائزہ (وی این آر ) اقوام متحدہ کی معاشی وسماجی کونسل (ای سی او ایس او سی) کے 15 ویں وزارتی اجلاس میں پیش کردیا جبکہ انہوں نے کہا ہے کہ عالمی اور قومی چیلنجز کے باوجود پاکستان عالمی برادری اور مقامی فریقین کے ساتھ ملکر اپنے پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کیلئے کوشاں ہے، پائیدار اور مستحکم ترقی کے حصول کیلئے ہم نوجوانوں کو تعلیم اور ہنر کی فراہمی کیلئے ترقیاتی منصوبوں میں عالمی اور مقامی فریقین کی شراکت داری کے ذریعے روزگار کے مواقع پیدا کرنے والے انفراسٹرکچر پر سرمایہ کاری پر توجہ دے رہے ہیں جبکہ ہم ایس ایم ایز اور معیشت کی ڈیجیٹلائزیشن کے ساتھ ساتھ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے ( سی پیک )پر خصوصی توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں۔

عالمی مالیاتی فنڈ کی شرائط بہت سخت ہیں اس لئے عام آدمی کو ریلیف کی فراہمی میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔ کووڈ۔ 19 کے دوران عالمی سطح پر ترقی پذیر ممالک کی مشکلات کم کرنے کیلئے کوئی ترقی یافتہ ملک سامنے نہیں آیا ، اقوام متحدہ کی سطح پر ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی سطح پر اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں دوگنا اور تین گنا اضافے سے انتہائی معاشی مشکلات کے حل کیلئے کردار ادا کیا جائے۔ وفاقی وزیر نے اقوام متحدہ کی اقتصادی وسماجی کونسل (ای سی او ایس او سی) کے 15 ویں وزارتی اجلاس میں پاکستان کیرضاکارانہ قومی جائزہ (وی این آر) کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان ایک فعال قوم ہے جس کی 64 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جن کی عمر تیس سال سے کم ہے۔

ان نوجوانوں کو اچھی اور معیاری تعلیم اور ہنرمندی کی ضرورت ہے تاکہ بہتر پاکستان کیلئے پائیدار ترقی کے اہداف حاصل کئے جاسکیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سال کی قومی رضاکارانہ قومی جائزہ رپورٹ دیگر مختلف فریقین کیساتھ شراکت کی حامل ہے جس میں مقامی کوششیں اور جدت شامل ہے۔ جس میں کووڈ سے نکلنے اور آگے بڑھنے کیلئے حاصل کئے گئے سبق کی روشنی میں آگے بڑھنا شامل ہے۔

انہوں نے پائیدار ترقی کے اہداف اور وژن 2025 کے حوالے سے بتایا کہ یہ دونوں آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ اس کا ہر ستون منفرد پائیدار ترقیاتی اہداف سے منسلک ہے انہوں نے بتایا کہ ماحولیات کو فعال بنانے کی پالیسی کے حوالے سے 2016 ء میں قومی اسمبلی نے متفقہ قراردادوں کے ذریعے پائیدار ترقی کے اہداف کو قومی ترقی کے ایجنڈے کے طور پر اپنایا تھا اس کے فورا بعد ہم نے ایس ڈی جیز کو مرکزی دھارے میں لانے اور اس پر عملدرآمد کیلئے وفاقی صوبائی اور خصوصی علاقوں میں سات خصوصی ایس ڈی جیز سپورٹ یونٹ قائم کئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے گزشتہ تین سال میں پہلے ایس ڈی جیز اسٹیٹس رپورٹ 2021 ء میں پیش کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ترقیاتی منصوبے ایس ڈی جیز سے مربوط ہیں اعدادوشمار کا معیار بہتر ہورہا ہے اور ہم اسے ہم آہنگ کررہے ہیں اس کیلئے سروے کے آلات کو معیاری بنایا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بے انکم سپورٹ پروگرام کے پاس ایک تازہ ترین نیشنل سوشل اکنامک رجسٹری ہے جس میں سکول سے باہر تمام بچوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ایس ڈی جیز اعشاریے کو ہدف کی سطح اور مجموعی طور پر پیش رفت کی نگرانی کیلئے تیار کیا گیا ہے جو 2015سے 2020 کے مقابلہ میں دس فیصد پوائنٹس کی بہتری کو ظاہر کرتا ہے انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں موبائل فون صارفین کی تعداد 18 کروڑ 20 لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔

گزشتہ مالی سال کے 9 ماہ میں اس میں 8.6 فیصد اضافہ ہوا ، براڈ بینڈ کے صارفین میں 28 فیصد اضافہ کے ساتھ یہ تعداد دس کروڑ تک پہنچ گئی۔ وفاقی وزیر نے پینل کو بتایا کہ کووڈ 19 کے حوالے سے مرکزی ادارے کے طور پر کام کرنے کیلئے ایک مرکز تشکیل دیا گیا ہم نے زندگی بچانے کی پالیسی روزگار اور معیشت کے بچائو کی سہ جہتی حکمت عملی پر عمل کیا اس مقصد کیلئے سمارٹ لاک ڈائون کی تجویز ایک موثر پالیسی تھی،اس کے علاوہ سٹیٹ بنک آف پاکستان کی جانب سے کاروبار کے لئے پیکج دیا گیا تاہم کووڈ 19 کے اثرات سب کو معلوم نہیں تھے اس لئے پہلی لہر میں ہماری جی ڈی پی منفی شرح نمو تک آگئی ہمارے قومی شماریاتی ادارے کے مطابق 2 کروڑ 73 لاکھ 10 ہزار کی کام کرنے والی آبادی متاثر ہوئی جبکہ دو کروڑ چھ لاکھ پہلی لہر کے دوران کام نہیں کرسکے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں انتہائی غربت 4.4 فیصد جبکہ 2016 اور 2019 کے دوران اس کی شرح میں 2.4 فیصد کمی ہوئی۔ 2015 سے 2020 کے درمیان ایس ڈی جیز کی انڈکس ویلیو 62.92 فیصد ہوگئی۔ انہوں نے کہا کہ انفارمیشن اور کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کی مہارت رکھنے والے نوجوانوں اور بالغوں کے تناسب میں 2018ـ19 اور 2019ـ20 میں 3.17 فیصد کا اضافہ ہوا۔ زچگی کے دوران شرح اموات 12 سال میں 276 سے کم ہوکر 186 ہوگئی۔ انہوں نے کہا کہ 2022 ء میں صنفی پالیسی کا فریم ورک صنف صحت تعلیم اور روزگار سے متعلق نگرانی پر مبنی مداخل کو بڑھانے کیلئے شروع کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وبائی امراض کے بعد کی معاشی نمو نے فی کس جی ڈی پی نے 13.4 فیصد اضافہ کے ساتھ بحالی کو ظاہر کیا۔ یہ سٹیٹ بنک آف پاکستان کی وجہ سے ممکن ہوا جس نے صنعت کو جی ڈی پی کے پانچ فیصد کے مساوی کووڈ کے دوران مدد فراہم کی۔ احسن اقبال نے کہا کہ ہم نوجوانوں کو تعلیم اور ہنر کیلئے کوشاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 2030 تک ہم قابل تجدید توانائی کا حصہ 30 فیصد تک بڑھانے کی امید کررہے ہیں۔ پاکستان نے قومی آفات کے خطرے کو کم کرنے کی حکمت عملی اپنائی اور سنڈائی فریم ورک پر عملدرآمد کیا، مقامی حکومتوں نے تیس فیصد پیش رفت کے ساتھ مقامی سطح پر آفات کے خطرے کو کم کرنے کی حکمت عملیوں کو اپنایا ہے انہوں نے کہا کہ پاکستان نے کلین گرین پاکستان کے پانچ ستونوں پینے کے پانی ، صفائی، حفظان صحت، سالڈویسٹ مینجمنٹ اور شجرکاری کو اپنایا۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لئے روشن ڈیجیٹل بینک اکائونٹ قانونی ذرائع سے ترسیلات زر میں اضافے کے ساتھ ساتھ غیرملکی سرمایہ کاری میں اضافہ کیلئے شروع کیا۔ پی پی پی اور یونیورسل فنڈز کے ذریعے سمارٹ ویلج کے پائلٹ پراجیکٹ کے تحت دیہی علاقوں کو آئی سی ٹی سہولیات سے آراستہ کیا جائے گا۔ انہیں ڈیجیٹل خدمات کے استعمال بارے میں تربیت دی جائے گی۔ جس سے دیہی آبادی کو تعیلم صحت اور تجارت کی بنیادی خدمات تک بہتر رسائی حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔

انہوں نے بتایا کہ کووڈ 19 کے دوران تعلیمی اداروں کو بندش کے دوران گریڈ ایک سے گریڈ بارہ تک ٹیلی سکول تعلیمی پروگرام شروع کیا گیا۔ ایک مقامی این جی اوز کے مطابق 32 فیصد آبادی اس ٹیلی سکول تعلیم سے مستفید ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں ٹیکنالوجی اور دیگر آئی ٹی سے متعلق خدمات کی فراہمی کلئے 28 سافٹ ویئر ٹیکنالوجی پارکس قائم کئے گئے۔ انسانی حقوق سے متعلق قانونی مشوروں کی فراہمی کے لئے وفاقی اور صوبائی سطح پر 1099 خصوصی ہلپ لائن قائم کی گئی جبکہ بچوں کے تحفظ کیلئے چائیلڈ پروٹیکشن ہیلپ لائن قائم کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں کمزور طبقہ کے تحفظ کیلئے زینب الرٹ، رسپانس اینڈ ریکوری ایکٹ 2020 اور اسلام آباد رائٹس آف پرسن ود ڈس ایبلٹیز ایکٹ 2020 سمیت خصوصی قوانین بنائے گئے ہیں۔

احسن اقبال نے کہا کہ دنیا میں خام تیل کی قیمت سو ڈالر فی بیرل سے اوپر چلی گئی اور یہ گزشتہ تین سے چار ماہ سے برقرار ہے اسی طرح خوردنی تیل کی قیمت بھی کئی گنا بڑھ گئی ہے اس کے ساتھ ساتھ ہمارے پاس پانچ لاکھ ٹن گندم کی قیمت ہے اور عالمی سطح پر بھی گندم کی قیمت بڑھ چکی ہے۔ ان تینوں اہم اجزائ کا ہماری ادائیگوں کے توازن پر گہرا اثر پڑا۔ روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے افراط زر ڈبل ڈیجٹ تک پہنچ گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف کی شرائط اس قدر سخت ہیں کہ عام آدمی کو ریلیف دینا مشکل ہے۔ انہوں نے کہا کہ کووڈ 19 کے دوران عالمی سطح پر ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے ترقی پذیر ممالک کی آسانیوں کیلئے کچھ نہیں کیا گیا۔

اقوام متحدہ کی سطح پر اس بات کی ضرورت ہے کہ عالمی منڈیوں میں اشیائ خوردونوش کی قیمتوں میں دوگنا اور تین گنا اضافے کی وجہ سے شدید معاشی مشکلات کو حل کیا جائے۔ ایس ڈی جیز کے حصول میں رکاوٹ دور کرنے کیلئے اقوام متحدہ کا کردار اہم ہے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں پہلی بار پسماندہ بیس اضلاع کا ایس ڈی جیز کے اصولوں کی بنیاد پر انتخاب کیا گیا ہے یہ اہداف روزگار کے مواقع پیدا کرنے غربت میں کمی، بنیادی سہولیات کی فراہمی اور کمیونٹی کو پائیدار حل فراہم کرتے ہیں۔
٭٭٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں