جمشید اقبال چیمہ

تین روز میں مطالبات پورے نہ ہوئے تو دیگر کسان تنظیمیں بھی اسلام آباد کا رخ کریں گی ‘ جمشید اقبال چیمہ

لاہور( گلف آن لائن) پاکستان تحریک انصاف کے فوکل پرسن برائے فوڈ سکیورٹی و خصوصی اقدامات جمشید اقبال چیمہ نے کہا ہے کہ حکومت اپنے مطالبات کیلئے اسلام آباد میں بیٹھے کسانوں کو دھمکانے کی بجائے وعدے کے مطابق ان کے مطالبات کو پورا کرے ، اگر تین روز میں مطالبات تسلیم نہ کئے گئے توتحریک انصاف کے کسان ونگ سمیت دیگر کسان تنظیموں کے ہمراہ اسلام آباد کا رخ کریں گے اور تب تک نہیں اٹھیں گے جب تمام مطالبات تسلیم نہیں کر لئے جاتے ، عالمی اداروں اور وفاقی حکومت کی اپنی جائزہ رپورٹس کے مطابق چاول کی 20فیصد ،مکئی کی 25فیصد ، کپاس 50فیصد اور دالوں کی 70فیصد کم پیدا وار ہو گی ،وفاقی حکومت نے جو صورتحال پیدا کر دی ہے اس سے خوراک کے بحران اور قحط کی صورتحال پیدا ہو نے جارہی ہے ۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے پنجاب اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ مسرت جمشید چیمہ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا ۔ جمشید اقبال چیمہ نے کہا کہ حکومت نے کسانوں سے مذاکرات کا وعدہ کیا لیکن اب رانا ثنا اللہ اور طارق بشیر چیمہ کسانوں سے مذاکرات کی بجائے انہیں ڈنڈے اور آنسو گیس کے شیل دکھا رہے ہیں ،کیا کسان کسی شوق سے گئے ہوئے ہیں ؟کسانوں کے سنجیدہ مطالبات ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارے دور میں کسانوں کیلئے بجلی کا فی یونٹ ساڑھے 8روپے تھا جو آج تین گنا اضافے سے25سے30روپے تک پہنچ گیا ہے ،کسانوں کو زراعت کیلئے پانی پمپ کرنا پڑتا ہے اور ڈیزل کی قیمت 80فیصد تک بڑھا دی گئی ہے ، ہمارے دور میں جو قیمت80وپے سے146روپے تک گئی وہ موجودہ وفاقی حکومت کے دور میں260روپے تک چلی گئی ہے ، کھادیں مہنگی ہو گئی ہیں ، ڈی اے پی 8ہزار روپے میں ملتی تھی آج اس کی قیمت 14900روپے تک پہنچ گئی ہے، پوٹاش 4ہزار روپے سے 15ہزار روپے تک چلی گئی ہے، ہماری حکومت ڈی اے پی پر1500روپے سبسڈی دیتی تھی ، ہم بیج مفت دے رہے تھے ، کچھ فصلوں کے لئے زرعی ادویات مفت تھیں، مشینری پر 40ارب روپے کی سبسڈی دے رہے تھے،

سائیلوز کے لئے 40ارب روپے رکھا گیا، تحریک انصاف کی حکومت کے ٹرانسفارمیشن پلان سے کسانوں کو فائدہ ہوا ، کسانوں کو امدادی قیمت مارکیٹ کے مطابق دے رہے تھے جس سے ایک سال میں ان کی آمدن1200ارب روپے بڑھی اور اگلے سال1400روپے تک پہنچی اور ہمارا ہدف تھا کہ 2028ء تک ہم ان کی آمدن 10ہزار ارب روپے تک بڑھائیں گے اور ہم اس کے لئے کامیابی سے پیشرفت کر رہے تھے ۔انہوں نے کہا کہ موجود حالات میں کسان کے لئے زراعت ممکن نہیں رہی ، کسان 83لاکھ گھرانے ہیں اورملک کے22کروڑ75لاکھ لوگوں کو خوراک دیتے ہیں، پاکستان وہ ملک نہیں جو ساری خوراک درآمد کر سکے ۔ پیداواری لاگت دو گنا سے زیادہ ہو گئی ہے ،خوراک کا بحران اور قحط کی صورتحال پیدا ہونے جارہی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے دور میں آٹے کی قیمت 55سے60روپے تھی جو آج110سے120پر چلی گئی ہے ،دالوں کی قیمتیں 100روپے تک بڑھ گئی ہیں، خوردنی تیل کی قیمتیں کم نہیں ہو رہی۔انہوں نے کہا کہ کسانوں کے مطالبات سنے جائیں،کھاد بجلی ڈیزل سستی کی جائے اور سبسڈی دی جائے۔ اگر تین روز میں مطالبات تسلیم نہ کئے گئے تو پی ٹی آئی کے کسان ونگ سمیت دیگر کسان تنظیمیں بھی اسلام آباد کا رخ کریں گی اوراس وقت تک نہیں اٹھیں گے جب تک حکومت مطالبات تسلیم نہیں کر لیتی ۔

انہوں نے مزید کہا کہ سیلاب سے چالیس لاکھ ایکڑ تباہ ہوا ہے ، بد قسمتی سے سندھ میں ابھی تک ایک ایکڑ کا سروے نہیں ہوا ،لوگوں کو امداد دینے کا کوئی میکنزم نہیں ، صرف پانچ فیصد لوگوں کو ٹینٹ یا راشن ملا ہے ، کسانوں کو بیج ، کھاد یا دیگر مد وں میں کسی بھی قسم کی سپورٹ نہیں دی گئی ۔انہوں نے کہا کہ سندھ میں گندم کی فصل مارچ میں تیار ہو جاتی ہے لیکن سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مئی میں خریداری شروع کر تی ہے ۔ اس دوران اراکین اسمبلی اور حکومتی کارندوں کے فرنٹ مین کسانوں سے سستی گندم خرید لیتے ہیں جو حکومت کو مہنگے داموں فروخت کی جاتی ہے اس لئے وہاں پر 4ہزار روپے من امدادی قیمت کی بات کی جارہی ہے ، اس وقت جو عالمی قیمت ہے اس کے تناسب سے پنجاب کی گندم کی امدادی قیمت ٹھیک ہے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں