بیجنگ (گلف آن لائن) یوکرین بحران کا ایک سال مکمل ہو گیا ہے ۔ گزشتہ ایک سال میں اس بحران سے ناصرف یورپ کی سلامتی اور استحکام کو شدید نقصان پہنچا بلکہ عالمی غیریقنیوں اور عدم سلامتی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
اسی دن چین نے یوکرین بحران کے سیاسی حل کے لئے “چین کا موقف “نامی دستاویز جاری کی اور بحران کے حل کے لئے چین کا موقف پیش کیا۔
تاریخی طور پر انسانیت دو عالمی جنگوں اور سرد جنگ سے دو چار رہی اور تلخ اسباق سے معلوم ہوا کہ بالادستی، بلاک سیاست اور دھڑے بازی کی محاذ آرائی کے نتیجے میں صرف جنگ اور تصادم پیدا ہو تا ہے۔
یوکرین بحران نے ایک بار پھر دنیا کے لیے خطرے کی گھنٹی بجائی ہے اور یہ بتایا ہے کہ تنازعات اور جنگوں کا کوئی فاتح نہیں ہے، اور مذاکرات اور بات چیت ہی بحران کو حل کرنے کا واحد اور قابل عمل طریقہ ہے.
چین، یوکرین بحران کا فریق نہیں ہے لیکن چین اس حوالے سے خاموش نہیں بیٹھا۔ چین کی جانب سے جاری کردہ دستاویز نے بحران کے سیاسی حل کے لئے ایک جامع ،تفصیلی اور قابل عمل فارمولہ فراہم کیا ہے۔
چین کے موقف میں خاص طور پر 12 پہلو شامل ہیں جو نہ صرف “تمام ممالک کی خودمختاری کا احترام” کے مستقل اصول کی پاسداری کرتے ہیں، بلکہ انسانی بحرانوں کو حل کرنے کے لئے مخصوص اقدامات بھی فراہم کرتے ہیں.
دستاویز میں مختصرمدت کے لئے “جنگ بندی” اور “امن مذاکرات کے
آغاز” کا مطالبہ کیا گیا ہے اور طویل مدتی وسیع النظری کے ساتھ “جنگ کے بعد تعمیر نو کو فروغ دینا” بھی اس دستاویز کا خاصہ ہے۔ یہ دستاویز نہ صرف تمام فریقوں کے خدشات کا ازالہ کرتی ہے بلکہ تمام فریقوں کے فرائض اور ذمہ داریوں کو بھی واضح کرتی ہے۔
یوکرین بحران پیچیدہ عوامل کا نتیجہ ہے۔ اس میں امریکہ اور نیٹو نے فریقین کو اکسانے کا کردار ادا کیا جو اس بحران کا آغاز اور بگاڑ کی وجہ بنا۔ اگر اس نکتہ کو نظر انداز کیا گیا تو اس مسئلے کو صحیح معنوں میں حل کرنا مشکل ہو جائے گا۔ چین کی جانب سے پیش کردہ “سرد جنگ کی ذہنیت کو ترک کرنے” اور “یکطرفہ پابندیوں کو روکنے” کی تجاویز براہ راست یوکرین بحران کی اصل وجہ کی نشاندہی کرتی ہے.
جس سے دنیا کو اس بحران کو سمجھنے میں مدد حاصل ہوگی اور امریکہ اور نیٹو کو بھی اس پر غور کرنا ہوگا.صورتحال جتنی پیچیدہ ہوگی، اتنا ہی ٹھنڈے دماغ سے کام لینے کی ضرورت ہے. چین کے موقف نے اس بحران کے حل کے لئے ایک قابل عمل حل فراہم کیا ہے، جس پر تمام متعلقہ فریقوں کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں امن کے دوبارہ قیام کو ایک موقع دینا چاہئے۔