بیجنگ (گلف آن لائن)”یہ اچھی بات ہے کہ وی چھیاؤ جیسے نوجوان دیہات کا رخ کر رہے ہیں۔”پانچ مارچ کو چین کے دو سیشنز میں شریک جیانگ سو وفد کے اجلاس میں چینی صدر شی جن پھنگ نے “نئی کسان”وی چھیاؤ سے بات چیت کرتے ہوئے انہیں بے حد خراج تحسین پیش کیا۔بدھ کے روز چینی میڈ یا کے مطا بق وی چھیاؤ پچھلی صدی کے 80 کے عشرے میں پیدا ہوئیں۔ سال 2017 میں انہوں نے چائنیز اکیڈمی آف سائنسز کے انسٹی ٹیوٹ آف جیوگرافی میں اسسٹنٹ ریسرچر کی نوکری کو خیر باد کہتے ہوئے پیکنگ یونیورسٹی کے اپنے پوسٹ ڈاکٹریٹ شوہر سون چن چونگ کے ہمراہ اپنے آبائی صوبے جیانگ سو کا رخ کیا اور دونوں یہاں”نئے کسان” بن گئے۔
“نئے کسان”عام طور پر ایسے افراد ہیں جو اعلیٰ تعلیم یافتہ،جدید سائنسی معلومات اور مارکیٹ سے متعلقہ شعور رکھتے ہیں ،اوردیہات اور زراعت میں اُن کی گہری دلچسپی ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دیہی احیاء میں اعلیٰ معیار کے باصلاحیت افراد اور لیبر ضروری ہے۔گزشتہ برسوں میں “نئے کسان”سے وابستہ معاون پالیسی کے نفاذ کی بدولت وی چھیاؤ جیسے زیادہ سے زیادہ “نئے کسان”دیہات کا رخ کرتے نظر آرہے ہیں ۔سال 2012 سے 2022 کے اواخر تک ملک بھر میں دیہات میں کاروبار کرنے والے “نئے کسانوں” کی تعداد تقریباً ایک کروڑ بائیس لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔نئے کسان ، نئے زرعی آلات لاتے ہیں،زرعی پیداوار کے نئے طریقے متعارف کراتے ہیں اور مسلسل نئے تصورات بھی لاتے ہیں۔یوں دیہی احیاء کی ایک نئی شکل سامنے آ رہی ہے۔
“چین کی جدیدکاری کو ، زرعی جدیدکاری سے الگ نہیں کیا جا سکتا ہے، اور زرعی جدیدکاری کی کلید سائنس و ٹیکنالوجی اور باصلاحیت افراد ہے.” 25 ستمبر2018 کو شی جن پھنگ نے صوبہ حئی لونگ جیانگ میں واقع ایک نیشنل ایگریکلچرل سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پارک کے جائزے کے دوران سائنس و ٹیکنالوجی اور ٹیلنٹ کی اہمیت پر زور دیا۔جدید سائنس و ٹیکنالوجی ہی نئے کسانوں کا کارآمد ترین زرعی آلہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان دنوں چینی دیہات میں روایتی کاشت کاری انتہائی محدود ہوتی جا رہی ہے اور نئے کسان بس اپنے آپریٹنگ کمرے میں بیٹھے ہوئے اناج کی صورتحال کی نگرانی کرتے ہیں،ڈرونز سے بوائی اور چھڑکاؤ کرتے ہیں،مشینوں کی مدد سے فصلوں کی کٹائی کرتے ہیں۔نئے کسانوں کی مدد سے دیہات میں کاشت کاری، بوائی،نگرانی،کٹائی،ذخیرہ کرنے،پروسیسنگ،مارکیٹنگ کو مربوط کرنے والا جدید زرعی پیداواری سسٹم قائم کیا گیا ہے۔
زرعی مصنوعات کی فروخت کو بڑھانے کے لیے نئے کسان ڈیجیٹل معیشت میں بھرپور انداز میں شریک ہیں۔صوبہ حو بئی کے شہر جنگ چو میں کنول کی کوالٹی کو بہت عمدہ مانا جاتا ہے۔تاہم گزشتہ برسوں میں کنول کی فروخت کافی مشکل تھی۔ ایک جوان لڑکی چاؤ مئی لی نے لائیو اسٹریمنگ سے کنول کی فروخت کو کافی حد تک بڑھایا۔پچھلی صدی کے 90 کے عشرے میں پیدا ہونے والی چاؤ مئی لی کے خیال میں موبائل فون ان کا نیا زرعی آلہ اور لائیو اسٹریم فروخت ہی ان کا نیا زرعی کام ہے۔
جدید سائنس و ٹیکنالوجی ،ڈیجیٹلائریشن مارکیٹنگ کے علاوہ،نئے کسان تکنیکی تربیت،روزگار کی فراہمی جیسے طریقوں سے کسانوں کی بھرپور مدد کر رہے ہیں۔مزید یہ کہ کسانوں میں ماحول دوست بیداری بھی پیدا ہوئی ہے۔ چاول کے کھیت میں مچھلیاں پالنے،مچھلیوں کے تالاب میں کنول اگانے جیسے نامیاتی زرعی ماڈلز کو وسیع پیمانے پر فروغ دیا جا رہا ہے۔یوں کسانوں کی آمدنی میں اضافہ ہو رہا ہے اوردیہات میں ماحول بھی بہتر ہو رہا ہے۔اب چین کے دیہات میں”مچھلی پکڑنے کے لیے تالاب کے پانی کو خشک کرنے”کا دقیانوسی طریقہ ترک کر دیا گیا ہے اور نئے کسان مزید سائنسی طریقے اور نئے تصورات کے ساتھ آ رہے ہیں ،جو پائیدار ترقی اور روشن مستقبل کے ضامن بن چکے ہیں۔