لاہور(گلف آن لائن)پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما و وفاقی وزیر ریلویز خواجہ سعد رفیق نے تحریک انصاف کو پاکستان کی آر ایس ایس قرار دیتے ہوئے کہا ہے اگر دو ، پانچ کے جتھوں سے ملک چلانا ہے تو سارے یہی کام کر لیتے ہیں ، یہ کون سا مشکل کام ہے ،زمان پارک میں پولیس سے جو مار پیٹ کی گئی ہے وفاقی حکومت اپنی حدود میں رہتے ہوئے اس کا نوٹس لے گی ، گلگت بلتستان کی موجودہ حکومت کے بارے میں ہماری کوئی سوچ نہیں تھی لیکن اب سوچ رہے ہیں ،ان کا علاج کیا جائے ،ریاست سے چھیڑ خانی کریں گے ،ریاست کے دئیے وسائل کو ریاست کے خلاف استعمال کریں گے ،
صوبائی منافرت پھیلانے کی کوشش کریںگے تو اس کی قیمت ادا کرنی چاہیے ،اس پر غور ہو رہاہے سیاسی طور پر سوچ رہے ہیں کیا کرنا ہے ،عمران خان کو عدالت تو جانا پڑے گا سر کے بل بھی کھڑے ہو جائیں عدالت لے جایا جائے گا ،آگے عدالت کی ذمہ داری ہے اسے رکھتی ہے پکڑتی ہے یا چھوڑتی ہے ،اگلی تاریخ دیتی ہے اس سے ہمار کوئی الینا دینا نہیں ،عمران خان کوپوتر اور اس کے بت کو دیوتا بنانے کے لئے مستند سیاسی قیادت کے منہ کالے کئے گئے ،کرپشن کے الزامات میں جیلوں میں ٹھونسا گیا، آج پوری ریاست اس کو بھگت رہی ہے ، یہ انہی کا کیا درا ہے جو ہر دس بارہ سال بعد نیا تجربہ کرتے ہیںجن کے تجربات کے شوق پورے نہیں ہوتے اور 22کروڑ پاکستانی اسے بھگت رہے ہیں۔
جو کھیل پاکستان کی سالمیت سے کھیلا جارہاہے اس چہرے کا نام عمران خان ہے ،یہ کوئی سیاستدان نہیں ہے ۔ پارٹی کے مرکزی سیکرٹریٹ ماڈل ٹائون میں ہنگامی پریس کانفرنس کرتے ہوئے خواجہ سعد رفیق نے کہاکہ توشہ خانہ کیس میں الیکشن کمیشن نے عمران خان کو ایک مدت کیلئے نا اہل کیا تھا اور متعلقہ سیشن کورٹ میں فوجداری کارروائی کو آگے بڑھانے کیلئے مدعی بنی تھی، یہ دو اداروںکا معاملہ ہے اور یہ آئینی باڈیز ہیں ، بچے بچے کو زبانی یاد ہے کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے کیاچوری کیا ہے اور اسے اپنے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا ،یہ پہلی بار نہیں ہوا ، سینکڑوں لوگ اس میں نا اہل کئے گئے ہیں ،
عمران خان سے تو رعایت برتی گئی ہے لوگ تو ہمیشہ کے لئے نا اہل کر دئیے گئے جبکہ عمران خان ایک مدت کے لئے نا اہل ہوئے اور الیکشن کمیشن فوجداری کارروائی کے لئے سیشن کورٹ میں چلا گیا ۔انہوں ے کہا کہ کیا عمران خان قانون ، آئین اورعدالت سے بالا تر ہیں بلکہ اب ریاست سے بالاتر بننے کی کوشش کر رہے ہیں ، وہ فیصلہ کر رہے ہیں عدالت میں پیش نہیں ہوںگے اور تاخیری حربے استعمال کریں گے،ان کے لئے پیشی پیشی پرپڑتی گئی یہ آگے آگے بھاگتے گئے ، ہائیکورٹس میں چلے گئے ،عدالتی احکامات کے خلاف ان کی وہاں بھی بات بنی نہیں کیونکہ یہ اوپن اینڈ شٹ کیس تھا اور ان کا پیش ہونا تھا،
عدم حاضری کی بنیاد پر ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے اور شاید ہی کوئی سیاستدان ہوگا جس کے زندگی میں ایک یا دو بار نا قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری نہیں ہوئے ہوں گے ۔ یہ تو عجیب عالم ہے ، گھبراہٹ کا ایسا عالم ہے چہرے پر زردی چھائی ہوئی ہے ، کبھی بیڈ کے نیچے کبھی بیڈ روم میں چھپ جاتے ہیں ، کبھی زمان پارک کو بنکر میں تبدیل کر دیتے ہیں ، انسانوں کواپنی ڈھال بناتے ہیں ، انہیں ڈنڈے سوٹے پکڑائے ہوئے ہیں جنہوں نے چہرے پر رومال باندھے ہوئے ہیں ،پیٹرول بم تیار کئے ہوئے ہیں خواتین اور نوجوانوں کو استعمال کیا جارہا ہے اور تو اور تحریک طالبان کے تربیت یافتہ لوگ بھی وہاں نظر آرہے ہیں ،
یہ کیا منظر ہے ،کس چیز کا خوف ہے بلکہ عجیب خوف ہے ۔انہوں نے کہا کہ عدالت نے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کئے ہیں، آپ چلے جاتے تو عدالت انہیں جاری نہ کرتی ،وہاں سے انصاف مانگتے ، آپ دوسروں کو بھی یہی نصیحت کرتے تھے ، پھبھتیاں کستے تھے جب کہا کرتے تھے کہ میں ان کو جیلوں میں ٹھونس دوں گا ،ہم یہ نہیں کہتے کیونکہ ہم کون ہیں کسی کو جیل میں ڈالنے والے ، جو قانون توڑے گا تو قانون اس کے لئے خود حرکت میں آئے گا اور اس کے مطابق عدالت فیصلہ کرے گی ، جن عدالتوں پر ہمیں اعتماد کا مشورہ دیا جاتا تھا آپ بھی وہاں جائیں۔
ہم تو ثاقب نثار کی عدالت میں پیش ہوئے ہیں کھوسہ صاحب کا جو دو نمبر نظام عدل تھا س میں بھی پیش ہوتے رہے ہیں ، احتساب عدالتوں میں پیش ہوتے رہے اور ہمیں پہلے سے پتہ ہوتا تھاآج ریمانڈ ملے گا یا جیل میں جائیں گے ، جج صاحب وکلاء کو بتا دیتے تھے اوپر سے حکم آ گیا ہے ریمانڈ کے لئے نیب واپس جائیں گے،یہ سارے تماشے ہم نے بھگتے ہیں ، ہماری جماعت نے بھگتے ہیں،ہم نے تو کوئی چیخ نہیں ماری ، رونا دھونا نہیں کیا ، کبھی عدالتوں پر پتھر نہیں مارے ، یہ ایک دن لاہور ہائیکورٹ گیا تو جم غفیر ساتھ لے گیا تاکہ عدالتوں کو دبائو میں لایا جائے ۔
انہوں نے کہا کہ جب نا قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہو گئے ہیں عدالت نہیں جانا تو پھر اسلام آباد پولیس نے کیا تعمیل نہیں کرانی ، جو پولیس آئی اس کے پاس کوئی ہتھیار نہیں ہے صرف شیلڈز ہیں کہ حملہ کرے گا تو اس کو روکا جائے گا ، آپ کے لوگوںنے ان پولیس والوں کو مار مار کر ان کی رگت بنا دی ، ڈی آئی جی پولیس سمیت 65پولیس والوں کو زخمی کیا اگر تشدد کا ارادہ ہوتا تو ان کے لوگ پھڑکنے بھی نہیں تھے لیکن پولیس نے ایسا کوئی کام نہیں کیا بلکہ پولیس ہی فرض کی ادائیگی کے لئے مار کھا رہی تھی ، کیا پولیس والے کسی کا بیٹا ،بھائی اورباپ نہیں ہے اس کی جان دوسروں سے ارزاں ہے ۔
جو پٹرول بم پھینکے ہیں وہاں بارہ چودہ پولیس والے تھے ان میں سے کوئی زندہ جل جاتا تو اس جان کو کہاں سے پورا کیا جاتا،ہم یہ سمجھتے ہیں عمران خان نے یہ پہلی بار نہیں کیا یہ ڈریکولا بن گیا ہے ،ان کے سہولت کاروں کو جو اسٹیبلشمنٹ میں بھی تھے جو عدلیہ میں بھی تھے، جو میڈیا میں بھی تھے ان کو مبارک ہو ، میڈیا مالکان اس میں ملوث تھے جو باہر سے دیہاڑیاں لگا کر آ گئے اور یہاں پر آ کرمیڈیا چینلز کھول لئیجو اسٹیبلشمنٹ سے ڈکٹیشن لیتے تھے، یہ ایک نا پاک الائنس تھا جس میں ایک آدمی کو گڑھ دیا گیا جو بنیادی پر بہروپیا ہے آوارہ گرد ہے ، خود کہتا ہے میںپلے بوائے تھا ،
اسے اٹھا کر پوتر بنا کردیوتا بنانے کے لئے مستند سیاسی قیادت کے منہ کالے کئے گئے ،کرپشن کے الزامات میں جیلوں میں ٹھونسا گیا، آج پوری ریاست اس کو بھگت رہی ہے ، یہ انہی کا کیا درا ہے جو ہر دس بارہ سال بعد نیا تجربہ کرتے ہیںجن کے تجربات کے شوق پورے نہیں ہوتے اور 22کروڑ پاکستانی اسے بھگت رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف سے معاملات کیوں طے نہیں ہو رہے ، رکاوٹیں آرہے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ یہ معاشی طور پر کمزور اورمعاشی طور پر لرز رہا ہے ،وہ شرائط آ رہی ہیں جو بیان نہیں کی جا سکتیں ،یہ جو کھیل پاکستان کی سالمیت سے کھیلا جارہاہے اس کا جو چہرہ ہے اس کا نام عمران خان ہے ،
یہ کوئی سیاستدان نہیں ہے ، یہ پاکستان کی آر ایس ایس ہے جو پی ٹی آئی کی شکل میں بنی ہے ،جتھوں کی سیاست کروں دو ، تین ، پانچ لوگوں کو اکٹھا کر لو اور ریاست کی رٹ کو چیلنج کر دو ،اگر اسی طرح ملک چلانا ہے تو سارے یہی کام کر لیتے ہیں ، بجائے الیکشن لڑنے کے جتھے اکٹھے کر لیتے ہیں یہ کون سا مشکل کام ہے ،کوئی دو سو ، کوئی دو ہزار ، پانچ ہزار اور کوئی بیس ہزار اکٹھے کرلے گا، لیکن پھر کون کنٹرول کرے گا کون سی عدالت کنٹرول کرے گی ، یہ بھی افسوسناک پہلو ہے کہ ایک عدالت نا قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتی ہے اسلام آباد ہائیکورٹ میں کیس چل رہا ہے اور لاہور ہائیکورٹ سے ایک فیصلہ آتاہے بات چیت کر لیں ، آپ پنچائیت کے لئے نہیں بیٹھے ہوئے آپ آئین و قانون کی رٹ ثابت کرنے کے لئے بیٹھے ہوئے ہیں ،دو پاکستان بنا دئیے گئے ہیں ایک عام آدمی اور ایک عمران خان کا پاکستان ہے،ہمیں تو کبھی اس طرح کی رعایت نہیں ملی ، ہم دوسری پشت سے سیاست کر رہے ہیں ،
اراکین قومی اسمبلی بنے ہیں وزیر بنے ہیں، ہم تو ابھی بھی احتساب عدالت میں جھوٹا کیس بھگت رہے ہیں، حکومت میںسال آئے ہوگیا ہے ہر پیشی پر جاتے ہیں ، نواز شریف اور مریم نواز روز عدالت نہیں گئے حالانکہ انہیں معلوم تھا کہ یہ کینگرو کورٹ ہیں دو نمبر کورٹ ہے سا را کچھ ریمورٹ سے کیا جارہا ہے پھر بھی سزائیں لے رہے تھے ، نواز شریف نے بیوی کو بستر مرگ پر چھوڑ کر بیٹی کے ساتھ پاکستان آنے کا فیصلہ کیا ، فیصلے کی حقیقت سب کو پتہ تھا ابھی مزید حقیقت سامنے آئے گی لیکن عدالت عدالت ہوتی ہے وہ چاہے کتنی ہی متنازعہ کیوںنہ ہو،آپ عدالت میں چڑھائی نہیں کر سکتے آپ فیصلے پر تنقید کر سکتے ہیں اختلاف رائے کر سکتے ہیں لیکن آپ نے عدالت میں جانا ہے ورنہ نظام ختم ہو جائے گا ، ایک تاریخ کی عدالت میں بھی فیصلہ ہوتا ہے اور وہ بتاتی ہے کہ عدالتی فیصلہ ٹھیک تھا یا غلط تھا،جو ٹھیک نہیں ہوتا اسے تاریخ نے کوڑے دان میں ڈال دیا ۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان ہے کیا چیز، یہ سمجھتا کیا ہے اس نے کیا کیا ہے،میں خود حیران ہوں سوائے کھیلنے اور سازش کرنے کے اس نے کیا کیا ہے ، کوئی جدوجہد کی ہے ، آمریت کو للکارا ہے ،آئینی بالا دستی کی لڑائی لڑی ہے ، اس نے تو صرف جھوٹ بول بول کر مغلظات بک بک کر لمبی لمبی چھوڑ کر ، سہولت کاروں کی مدد سے فارن فنڈنگ سے جو ثابت ہو گئی ہے اس کے تحت اسے کھڑا کیا گیا ہے ، اس گروہ کی سزا ریاست بھگت رہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ اس نے جو مارپیٹ کی ہے پولیس پر تشدد کیا ہے ، وفاقی حکومت اپنی حدود میں رہتے ہوئے اس کا نوٹس لے گی ،اس میں قانون پرعملدرآمد ہوگا اور جو ملوث ہوا قانون اس کے خلاف حرکت میں آئے گا ۔ جہاں تک نگران پنجاب حکومت کا تعلق ہے وہ ان کا کام ہے انہوں نے کیا کرنا ہے ۔ عمران خان کو عدالت تو جانا پڑے گا سر کے بل بھی کھڑے ہو جائیں عدالت لے جایا جائے گا ، انہیںعدالت کے اندر پیش ہونا ہے یہ حکومت کی ذمہ داری ہے ،آگے عدالت کی ذمہ داری ہے اسے رکھتی ہے پکڑتی ہے یا چھوڑتی ہے ،
اگلی تاریخ دیتی ہے اس سے ہمار کوئی الینا دینا نہیں ، آپ کو عدالت کے سامنے پیش کرنا ہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ سیاسی قیادت اس طرح اوچھے ہتھکنڈے استعمال نہیں کرتیں ،بنکرز مورچے نو گو ایریا نہیں بنا لیتیں،یہ سیاسی لوگوں کا کام نہیں ہے جتھہ برداروں کا کام ہے ، عمران خان فیصلہ کر لے جتھہ بردار بننا ہے یا خود کو سیاسی جماعت بناناہے ایک طرف لگو ۔ جوفیصلے آتے رہے ہیں وہ نا مناسب تھے ،ان پر تنقید کرتے رہیں گے یہ ہمارا آئینی و جمہوری حق ہے ، ہمارے لئے اور عمران خان کے لئے اور قانون ہے ،عمران خان تو یہ کہا گیا کہ کل نہیں آ سکتے پرسوں تشریف لے آ ئیںاگر نہیں آ سکتے دو روز بعد آ جائیں اور تاریخ دے دیتے ہیں ، ہمارے ساتھ یہ سلوک نہیں کیا گیا ہمارا چُورا کر دیا گیا کیونکہ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کا ڈنڈا پیچھے تھا ،کیا ہمیں نہیں پتہ تھا کیا ہوتا ہے ، ایک ایک آدمی کا پتہ ہے ، ایک ایک کا نام پتہ ہے ، جو بیتی ہے وہ محو ہو گئی ہے لیکن ہم بدلہ لینے والے لوگ نہیں ہے ،
وہ کردار جو اسٹیبلشمنٹ یا عدالت میں تھے ہر کا ایک نام اور پتہ معلوم ہے ، اب نجی محفلوںمیں معذرتیں کرتے پھرتے ہیں ، اب معذرت کا کیا فائدہ جب ریاست سے کھلواڑ کر لیا ،ملک کا بیڑہ غرق کر دیا ،پاکستان کو معاشی تباہ کے دہانے پر لا کھڑا کر دیا۔اس میں سارے جج شامل ہیں جو اس سازش کا حصہ تھے وہ فوجی افسران شامل ہیں جو اس سازش کا حصہ تھے وہ صحافی بھی شامل ہیں جو بکائو تھے ٹکے ماری کرتے تھے اور جھوٹے پروگرام کرتے تھے ۔عمران خان کے گناہوں کا ٹوکرا ہمارے سر پر آ گیا ہے کیونکہ ہم بھاگ نہیں سکتے ہمار املک ہے اسے چھوڑ کر کہاں چلے جائیں ، ہمیں پتہ ہے ہم نے اپنی سیاست کو دائو پر لگایا ہے ، آئی ایم ایف سے معاملات نہیں ہوں گے ، دنیا پیسے نہیں دے گی تو نظام خراب ہو چکا ہوگا تو مہنگائی اوپر جائے گی لوگ تکلیف میں ہوں گے اور تکلیف میں ہیں ،قوم کو پتہ ہونا چاہیے اگر ان کا ایک سال اذیت سے گزرا ہے ہم نے اس سے زیادہ اذیت بھگتی ہے ، ہم نہ چھوڑ سکتے ہیں نہ آگے جا نے کا راستہ ہے ، پیچھے آنے کا راستہ موجود ہے لیکن ہم نے دوڑ نہیں لگائی نہ دوڑ لگائیں گے ۔
انہوںنے کہا کہ عمران خان کی کوئی غلط فہمی ہے تو دور کر لیں ، یہ پہلا ڈکٹیٹر نہیں جس کا مقابلہ کر رہے ہیں ، ہمارے بڑوں نے بھی ہم نے بہت سے ڈکٹیٹر دیکھے ،فوجی اور سول ڈکٹیٹر دیکھے ، یہ بد ترین ڈکٹیٹر ہے جس کا نام عمران خان ہے ۔انہوںنے کہا کہ یاسمین راشد کی صدر علوی سے گفتگو سنی ہے ، وہ فکر مند ہو رہی ہیں کہ گڑ بڑ ہو گئی تو کیا ہوگا لیکن عمران خان کو کوئی فکر نہیں ، انہوںنے کہا کہ اسد عمر بھی باہر بیٹھاہوا ہے ، یہ کسی کی سنتا ہی نہیں،آمر مطلع ہے ،اپنی پارٹی میں بھی کسی کی نہیں سنتا، اچھے گھرانوں کے نوجوان ڈنڈے اٹھائے ہوئے ہیں، ایک شخص کالم لکھتا ہے اسے ڈنڈا بردار بنا دیا ہے ۔ اعجاز شاہ ان کو فون جارہا ہے اگر ٹکٹ لینا ہے تو بندے لے کر آئو ،یہ کوئی جنت کا ٹکٹ ہے یہ جہنم کا ٹکٹ ہے جو تم دے رہے ہو ، حملے کرانا ملکی سالمیت سے کھیلنا یہ جنت کا نہیں یہ جہنم کا ٹکٹ ہے ،تم جس مقبولیت کے پہاڑ پر چڑھے ہوئے ہو اور بھی بہت مقبول تھے ،جو جتنا زیادہ مقبولیت کے اونچے پہاڑ پر چڑٹھتا ہے وہ اتنی تیزی سے نیچے گرتا ہے ، تم جو کھیل کھیل رہے ہو اس سے پاکستان کو نقصان ہورہا ہے ۔
یہ چاہتے ہیں حکومتی کارکردگی ختم ہو چاہے ملک ڈیفالٹ ہو جائے ، اس کی ریاست کو قیمت ادا کرنی پڑتی ہے ، اگر عمران خان حکومت کرنے کیلئے آنا تو کیا ڈھانچے پر حکومت کرنی ہے ،ملک میں جان ہو گی تو حکومت کرو گے ۔اگر تمہارے خلاف کیسز ٹھیک نہیں ہیں تو جا کر عدالت میں لڑو ، جتھے بازی پیٹرول بم چلانا ،سارے صوبوں سے لوگ لانا یہ درست عمل نہیں۔ اگر اسلام آباد پولیس گلگت بلتستان میں جا کر مقابلہ کرے گی تو گلگت بلتستان کے لوگوں کو کیسا لگے گا۔گلگت بلتستان میں سہولت کاروں نے تمہاری حکومت بنوائی تھی ، اگر حکومت بن گئی حکومت ٹک جائو ، وہاں کا وزیر اعلیٰ ٹک ہی نہیں رہا ۔ پنجاب پولیس والے نہتے ہیں اور گلگت بلتستان کے پولیس والے گنز لے کر کھڑے ہیں ۔ گلگت بلتستان کی موجودہ حکومت کے بارے میں ہماری کوئی سوچ نہیں تھی لیکن اب سوچ رہے ہیں ،ان کا علاج کیا جائے ،ریاست سے چھیڑ خانی کریں گے ،ریاست کے دئیے وسائل کو ریاست کے خلاف استعمال کریں گے ،صوبائی منافرت پھیلانے کی کوشش کریںگے تو اس کی قیمت ادا کرنی چاہیے ،
اس پر غور ہو رہاہے سیاسی طور پر سوچ رہے ہیں کیا کرنا ہے ۔عمران خا ن کو جو حکومتیں ملی ہوئی ہیںانہیں اپنے ذاتی مذموم مقاصد کیلئے استعمال کیا ، عمران خان نے دو اسمبلیاں ختم کرا دیں، جسٹس اطہر من اللہ نے نقطہ اٹھایا کہ جمہوریت کے پاس ایبلسیوٹ پاور نہیں ہوتی ، وزیر اعظم کے پاس اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار ہے لیکن بغیر وجہ بٹائے تحلیل نہیں کر سکتے ، یہ کوئی ڈسپوزیبل گلاس ہے، دو اسمبلیوں توڑ دیں کوئی وجہ نہیں ، جب سینئر جج نے نقطہ اٹھایا تو خاموشی طاری ہے اوراگلے روز بنچ میں نہیں رہے۔ انہوںنے کہا کہ دو اسمبلیوں میں پرانی مردم شماری پر انتخابات کر ادیں ، وفاق اور باقی دو اسمبلیوںمیں نئی مردم شماری کے تحت انتخابات ہوںپھر کیا تماشہ لگے ، روٹی کھانے کو نہیں ہے ،خزانے میں پیسہ نہیں ،تنخواہوں کے پیسے دینے میں مشکل ہوئی ہے لیکن کچھ لوگ ذاتی پسند نا پسند کے لئے کام کر رہے ہیں چاہے ریاست کو نقصان ہو جائے۔
کیا ان کے نام لئے جارہے ہیں جو آج سابق ہو گئے ہیں جب آپ سابق ہوںگے آپ کا بھی ذکر ہوگا تاریخ کبھی معاف نہیںکرتی ۔ جو عمران خان کو لائے تھے وہ آج تاریخ کے کٹہرے میں کھڑے ہیں یہ تو ہونا ہی تھا ،ہم نے اسمبلی میں کھڑے ہو کر کہا تھا تم کمبل کو چھوڑو گے لیکن کمبل تمہیں نہیں چھوڑے گا، خیال کریں فیصلہ کیا دے رہے ہیں،ریاست کو مضبوط کر رہے ہیں یا نقصان پہنچارہے ہیں ، کسی کو اتھارٹی نہیں دی گئی کہ وہ اختیارات کو اپنی منشا کے مطابق استعمال کرے بلکہ قانون کو قانون کی منشا کے مطابق استعمال کرنا ہے ۔ کوئی سیاستدان ہے جج ہے جرنیل ہے سول سرونٹ ہے قانون کو قانون کی منشا کے مطابق استعمال نہیں کرے گا تو سوال ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کو عدالت میں پیش ہو جانا چاہیے ، عدالتوں میں پیش ہوں تماشے کو بند کریں ، لاشوں کی سیاست بند کریں ،ظل شاہ کی لاش پر گھٹیا کام کیا ہے ،
وزیر آباد میں آپ کے گارڈ کی گولی سے معظم جاں بحق اسے سیاست کے لئے استعمال کیا ، تم خون آشام بلا بن گئی ہو ، جسے لاشیں ملیں تاکہ ماتھے پر مظلومیت کا تلک لگا لوں،یہ نہیں ہوگا ، آپ اس میں ناکام رہو گے۔خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ سیدھا سا حل ہے عدالت کے بلانے پر عدالت جائیں جہاں انسانوں کی طرح جاتے ہیں جس طرح سب جاتے ہیں ، عدالت سے ریلیف لیں عدالت میں مقدمات کا سامنا کریں ۔ انہوںنے کہا کہ ذمہ داری سے کہہ رہا ہوں ہمارے اگلے انتخابی منشور میں نئے نظام عدل اور معیشت کے حوالے سے ذکر ہوگا ، اگر نئے نظام عدل کا منشور میں شامل نہ ہوا تو پھر سمجھتا ہوں الیکشن لڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ،ججز کی تقرری کے طریق کار کو بدلا جائے اور ماتحت عدلیہ سے ججز کو اوپر آنے کا موقع دیا جائے ،جہاں پسند نا پسند آتی جونیئر کوسینئر کردیا جاتا ہے وہاں میرٹ خراب ہوتا ہیں،نئے نظام عدل کا خاکہ بنانا ضروری ہے اس کے بغیر نیا مینڈیٹ مانگنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے ، نیا معاشی خاکہ بھی ہوگا جو قابل عمل ہوگا جو پاکستان کے حالات سے مطابقت رکھتا ہو۔
انہوںنے کہا کہ عمران خان آر ایس ایس کے راستے پر چل رہا ہے ،اس کی سہولت کاری ختم ہونے میں نہیں آرہی ہے ،باہر سے پیسہ آرہا ہے ، زلمے خلیل زاد کو پاکستان کے معاملات دخل اندازی کی کیا تکلیف ہوئی ، سب ان صاحب کی وارداتوں کو جانتے ہیں، عمران خان کے جو ڈانڈے ملے ہوئے ہیں،پاکستان سے جوباہر پیسہ آرہا ہے سپورٹ آرہی ہے ، جو ناجائز مطالبات کئے جارہے ہیں ان کو جوڑ کر دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ شاہد خاقان عباسی کو کوئی استعمال نہیں کر سکتا۔ انہوںنے کہا کہ ڈنکے کی چوٹ پر کہتا ہوں انتخابات کرانے کا فیصلہ آئین و قانون کی خلاف ورزی ہے ، میں بڑا واضح اور کلیئر ہوں ، جب نظر ثانی کی درخواست پڑی ہوئی اسے حل نہیں کیا اورفیصلہ آ گیا ہے ،ججز نے لکھا ہے آئین کو ری رائٹ کیا گیا ہے ،تشریح کیسے کرتے ہیں، کیا یہ فیصلے درست ہیں ، اس کا پاکستان یا جمہوریت کو فائدہ ہوگا ؟، یہ تقسیم در تقسیم کرنے والا کام ہے ۔