کراچی (گلف آن لائن)نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولزفورم وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدراورسابق صوبائی وزیرمیاں زاہد حسین نے نگران وفاقی کابینہ کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ نگراں کابینہ اچھی شہرت اور قابل افراد پر مشتمل ہے۔ وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر جو ایک عالمی شہرت یافتہ ایکانومسٹ ہیں انکے لئے آئی ایم ایف سے ڈیلنگ، قرضوں کے مسائل حل کرنا، شرح مبادلہ کومتوازن رکھنا، بلند سود اورمہنگائی پر قابو پانا بڑے چیلنج ہیں۔
ایندھن کی قیمت میں ہوشربا اضافہ اورروپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے مہنگائی کم ہونے کے بجائے بڑھ رہی ہے جسے کم کئے بغیر شرح سود میں کمی لانا ناممکن ہے۔ میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ مہنگائی کم کرنے کے لئے شرح سود پرزیادہ انحصار کیا جا رہا ہے جبکہ انتظامی و دیگر اقدامات کو نظر انداز کیا جا رہا ہے جسکی وجہ سے یہ کوششیں کامیاب نہیں ہو رہی ہیں۔ انتظامی اقدامات سے مہنگائی کم ہو سکتی ہے جس کے بعد شرح سود میں کمی ممکن ہو جائے گی جس سے معیشت اورعوام کی حالت بہتر ہوگی، حکومت کو مقامی قرضوں کی ادائیگی پرکم سود ادا کرنا پڑے گا پچھلے سال حکومت نے قرضوں پر 7200 ارب روپے سود ادا کیا ہیاس سلسلے میں وزیراعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر وقار مسعود جو ایک آزمودہ کار اور کہنہ مشق ایکانومسٹ ہیں ان کی مہارت سے فائدہ اٹھایا جائے گا۔
میاں زاہد حسین نے کہا کہ اوپیک کی جانب سے پیداوار میں کمی کی وجہ سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمت بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سیحکومت کو بھی تیل کی قیمت میں اضافہ کرنا پڑتا ہے، جس سے مہنگائی میں اضافہ ہو رہا ہے جس کے تدارک کے لیے پاکستان کو اپنے انرجی مکس میں ری نیو ایبل انرجی کا حصہ بڑھانا ہوگا جب کہ الیکٹرک آٹوموبیلزکو مزید رعایتیں دینا ہوں گی۔ ادھر ٹیکس جمع کرنے کا نظام بھی انتہائی کمزور ہے، تنخواہ داروں اور صنعتی شعبے کے علاوہ کوئی بھی اپنی آمدنی میں سیٹیکس ادا کرنے کو تیا رنہیں ہے پاکستان میں سالانہ چار ہزار ارب روپے ٹیکس بچایا جاتا ہے، حکومت کو انڈائریکٹ ٹیکس لینا پڑتا ہے جس کا اثرغریب پر پڑتا ہے۔
میاں زاہد حسین نیمزید کہا کہ نگراں وزیر خزانہ کوفوری طور پر بھاری مقدار میں زرمبادلہ کا انتظام بھی کرنا ہو گا تاکہ قرضوں اور سود کی ادائیگی میں کوئی رکاوٹ نہ آئے جبکہ نگران وزیر تجارت ڈاکٹر گوہراعجاز جو کاروباری برادری کی ہر دل عزیز شخصیت ہیں، انکو ملکی وغیرملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے راغب کرنا، برامدات میں اضافہ جیسے چیلنج درپیش ہوں گے جس کے لئے کاروباری لاگت میں کمی، ملکی حالات، متعلقہ قوانین اوردیگر معاملات کو بہتر بنانا ہوگا .
اس سلسلے میں اسپیشل انویسٹمنٹ فیسلیٹیشن کونسل گیم چینجر ثابت ہو سکتی ہے۔ اسکے علاوہ پاور سیکٹر میں اصلاحات اور سالانہ ایک کھرب روپے کا نقصان کرنے والی سرکاری کمپنیوں سے بھی جان چھڑانا ہو گی کیونکہ گزشتہ کئی دہائیوں میں انکی کارکردگی بہتر بنانے کی تمام کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔