مکوآنہ (نیوز ڈیسک)فیصل آباد میڈیکل یونیورسٹی کی فوڈ نیوٹریشنسٹ ڈاکٹر عائزہ احمد نے ماؤں میں دودھ پلانے کی کم ہوتی ہوئی شرح اور بچوں کی بڑھوتری میں جمود پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ اس سے بچوں کی جسمانی اور ذہنی صحت بری طرح متاثر ہوتی ہے اور خاندان میں صحت کے بجٹ میں غیرمعمولی اضافہ ہورہا ہے۔
بریسٹ فیڈنگ کے حوالے سے بات چیت کے دوران انہوں نے کہا کہ قدرت نے ماں کے دودھ میں وہ تمام اجزا وافر مقدار میں مہیا کر دیئے ہیں جن کی مدد سیبچے کی صحت کے ساتھ ساتھ جسمانی و ذہنی بڑھوتری ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر کے ماہرین بچے کو پیدائش کے پہلے گھنٹے سے کم از کم چھ ماہ تک ماں کے دودھ کی سفارش کرتے ہیں جس کے بعد دو سال تک نیوٹریشن پر مبنی غذا اس کی خوراک کا حصہ بنایا جائے تو بچے میں عمر بھر بیماریوں کے خلاف بھرپور قوت مدافعت پیدا ہوجاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بیشترخاندانوں میں فارمولہ دودھ کو ماں کے دودھ کا متبادل سمجھ کر اسی پر قناعت کیا جاتاہے جس کی وجہ سے بچوں میں ہیضہ اور پیٹ کے جملہ امراض کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خاندان کی بڑی خواتین خصوصاً ماؤں میں بریسٹ فیڈنگ کی افادیت اجاگر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بچوں اور خواتین میں امراض کی شرح کوقابوکیا جا سکے۔انہوں نے کہا کہ ملک میں 44فیصد بچوں کی نشوونما جمود کاشکار ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے پورے قد کو نہیں پہنچ پاتے لیکن اگر ماں اپنے بچوں کو دو سال تک باقاعدگی سے دودھ پلائے تو غذائی کمی پر خاطر خواہ حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بریسٹ فیڈنگ سے بچوں کے ساتھ ساتھ ماں کی صحت پر بھی انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں لہٰذا فارمولا دودھ کو کبھی بھی ماں کے دودھ کا متبادل قرار نہیں دیا جاسکتا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اقوام متحدہ کے ایس ڈی جیز سے کامیابی کے ساتھ عہدہ برآ ہونے کیلئے خاطر خواہ اقدامات کی ضرورت ہے جس کیلئے لازم ہے کہ صحت، تعلیم، پانی و سینی ٹیشن، خواتین کو بااختیار بنانے، صنفی مساوات کے ساتھ ساتھ خواتین اور بچوں کی صحت کیلئے خصوصی پروگرام شروع کئے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ عوام کی نیوٹریشن پر خرچ کیا جانیوالے ایک ڈالر کی سرمایہ کاری 16ڈالرکی بچت یقینی بناتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں دو سال تک بچے کو ماں کا دودھ یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ پہلے چھ ماہ بعدتو اس پر چنداں سمجھوتہ نہیں کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ بریسٹ فیڈنگ کے حوالے سے پاکستان کا شمار ایسے ممالک میں ہوتا ہے جہاں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد غذائی کمی ا ور نشوونما میں جمود کا شکار ہے۔انہوں نے کہا کہ بچے کو پیدائش کے پہلے گھنٹہ کے دوران ماں کا دودھ پلانے کی شرح 40فیصد سے بھی کم ہے جبکہ دوسرے صوبوں کے مقابلہ میں پنجاب کی صورتحال تشویشناک حد تک خراب ہے جہاں سے 28فیصد بچوں کو پیدائش کے فوری طورماں کا دودھ دیا جاتا ہے۔انہوں نے بچوں میں نشوونماکے جمود اور غذائی کمی کو بریسٹ فیڈنگ سے منسوب کرتے ہوئے کہا کہ ماں کا دودھ پینے والے بچوں کی نشوونما دوسرے بچوں کے مقابلہ میں زیادہ بہتر ہوتی ہے جبکہ تمام ضروری اجزاکے حامل ماں کے دودھ سے وہ غذائی کمی جیسے مسائل سے بھی محفوظ رہتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ پیدائش سے پہلے چھ ماہ کے دوران بچے کو ماں کے دودھ کے علاوہ کسی دوسری خوراک کی چنداں ضرورت نہیں لہٰذا تمام غذائی اجزاسے بھرپورماں کا دودھ ہی اس کی اولین خوراک ہونی چاہئے۔انہوں نے واضح کیا کہ بریسٹ فیڈنگ کے بغیر پلنے والے بچوں کے مقابلہ میں ماں کا دودھ پینے والے بچوں میں ہیضہ کے امکانات 72فیصد جبکہ موٹاپے کی شرح بھی 52فیصد کم ہوتی ہے لہٰذا خاندان کے بڑوں اور خصوصاً والدین اپنے بچوں کیلئے ماں کے دودھ کی فراہمی ہر طرح سییقینی بنائیں۔ انہوں نے کہاکہ51فیصد حاملہ خواتین خون جبکہ 46فیصد وٹامن اے،47فیصد زنک اور 68فیصد وٹامن ڈی کی کمی کا شکارہیں۔
انہوں نے بریسٹ فیڈنگ کی شرح میں کمی کی وجوہات کا احاطہ کرتے ہوئے کہا کہ شادی شدہ خواتین میں ملازمت کی شرح میں اضافہ، معاشرتی رویوں اورجسمانی خدوخال میں ممکنہ خرابی جیسی غلط فہمیوں کے ساتھ ساتھ فارمولادودھ کامنفرد ذائقہ بھی بچوں کو ماں کے دودھ سے دور کرنے کی بڑی وجہ ہے کیونکہ جونہی بچے کوماں کے دودھ کے بجائے فارمولاخوراک کی فراہمی شروع کی جاتی ہے وہ اسے زیادہ پسندکرتا ہے۔
انہوںنے کہاکہ ماں کے دودھ کے مقابلہ میں فارمولا دودھ پینے والے بچے بظاہر زیادہ صحت مند دکھائی دیتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ بدستور موٹاپے کا شکار ہوکرصحت مند زندگی سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں لہٰذا پیدائش سے پہلے چھ ماہ تک بچے کو ماں کے دودھ کے علاوہ کوئی بھی اور چیز کھانے کو نہ دی جائے۔