کوئٹہ (نمائندہ خصوصی) پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ آئینی عدالت ہر صورت بنے گی نہ بنی تو نقصان ہوگا، جو چیمپئن بنے ہیں انہیں کچھ معلوم نہیں، آئینی ترمیم سے متعلق میں موجودہ چیف جسٹس کے لیے جدوجہد نہیں کررہا، میرا نہیں آپ کا ایجنڈا کسی خاص شخصیت کے لیے ہوسکتا ہے لہذا مجھے کوئی مسئلہ نہیں ان دو ججوں میں کوئی بھی آکر آئینی عدالت میں بیٹھے،آئین پارلیمان نے بنایا مگر حکمرانی کسی اور کی ہے، آپ چاہتے ہیں فیصلے ہوتے رہیں اور ہم شکایت بھی نہ کریں؟ جو آئین کو نہیں مانتا وہ سیاست اور وکالت چھوڑ دے،آمر کے بنائے گئے کالے قوانین کا خاتمہ ضروری ہے، میرا بلوچستان کے وکلا کے ساتھ خاص طور پر گہرا لگاﺅہے، بلوچستان کے وکلا نے آمریت کاڈٹ کر مقابلہ کیا۔ان خیالات کا اظہار انہوں نےبلوچستان ہائیکورٹ بار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن، ڈسٹرکٹ بار، پی ایل ایف کا شکر گزار ہوں، موقع دیا گیا ہے کہ بلوچستان کے وکلا سے ایک بار پھر بات کروں، آج کل جو وکلا کے چیمپئن بنے ہوئے ہیں میرا اور وکلا کا لگا کیا ہے ان کو کیا پتہ، یہ نہ سمجھیں کہ میں لاہور یا اسلام آباد سے آیا ہوں، میں آپ میں سے ہی ہوں۔
انہوں نے کہا کہ ہم خونی جدوجہد نسلوں سے کرتے آرہے ہیں، یہ کسی بندوق کا انقلاب نہیں رہا، کوئی چیز ایک دن یا ایک سال میں نہیں ہوئی ۔بلاول بھٹو کاکہنا تھا کہ آئین کی بحالی شہید بینظیر بھٹو کی سیاسی جدوجہد کا مقصد تھی، شہید بینظیر بھٹو آئین کی بحالی کی جدوجہد 30سال کرتی رہیں، 1973کے آئین کو ہم نے بحال کیا،چارٹر آف ڈیموکریسی کے ذریعے، شہید ذوالفقار علی بھٹو کا پھانسی پر چڑھایا گیا، میرے اور دوسری جماعتوں کے کارکنان کو نشانہ بنایا گیا۔بلاول بھٹو نے کہا کہ شہید بینظیر بھٹو کی جدوجہد کا آج پی ٹی آئی کو مجھ سے زیادہ معلوم ہے، آپ نے مسلم لیگ ن کا دور بھی دیکھا جس میں مجھے اور شہید بینظیر بھٹو کو جیل کے باہر بٹھایا گیا، میرے والد کو کسی سزا کے بغیر ساڑھے 12سال جیل میں رکھا گیا، پہلے شریف کی مرضی پھر جنرل پرویز مشرف کی مرضی کے تحت جیل بھیجا گیا۔بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ افتخار چودھری ، میاں نوازشریف کی موجودگی میں تمام کیسز سے بری کردیا گیا، میں قائد عوام کا نواسہ ہوں،بی بی اور صدر کا بیٹا ہوں، میں آپ وکلا جیسا ہی ہوں میرے ساتھ سب کچھ ہوتا آرہا ہے، جنرل کیانی اور جنرل پاشا جب اعلی عہدوں پر تھے تو مک مکا ہوا تھا۔ان کامزید کہنا تھا کہ مانتا ہوں آج انسٹیٹیوشن کے برے حالات ہیں لیکن تب بھی حالات برے تھے، یہ ادارہ پارلیمان پر مسلسل حملہ آور رہا ہے، آپ نے آزادی کے نام پر ان کو اتنی طاقت دلا دی کہ آئین ان کی مرضی ہماری نہیں، 63اے ہم نے لکھا ہے اس لیے اس کا مطلب سب سے زیادہ مجھے پتہ ہے، آپ رضا ربانی،صدر زرداری سے پوچھیں وہ کمیٹی میں موجود ہیں ۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ آج برے حالات ہیں ، مگر پہلے تو اس سے بھی برا حال تھا، ہمیں افتخار چودھری یاد ہے، افتخار چودھری نے مشرف کو اجازت دی کہ آئین میں ترمیم آپ نے کرنی ہے، آپ لوگ جو ہیں اسمبلی بھیجتے ہیں وہ تو بس ایسے ہی بھیجتے ہیں، پورے پاکستان میں یہ مسائل ہیں۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ اسلام آباد میں عدالتی جنگ سے میرا کوئی تعلق نہیں ، اب ریاست باپ کی طرح بن گئی ہے ،اس میں کردار افتخار چودھری کا ہے ، افتخارچودھری جیسے مائنڈ سیٹ نے عدلیہ کوخراب کیا، آپ چاہتے ہیں کہ فیصلے ہوتےرہیں اورہم شکایت بھی نہ کریں ، آپ کسی وزیراعظم کو نکالیں اور ہم چوں تک نہ کریں۔ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے وکلا نے ہمیشہ آمریت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے۔ صوبے کے عوام کو کچھ عرصے سے دہشت گردی کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری نسلوں نے جمہوریت کی خاطر اپنی جانیں قربان کی ہیں۔بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ آمر کے بنائے گئے کالے قوانین کو ختم کرنا ضروری ہے۔ ہمارے خاندان کا سفر کٹھ پتلی سے شروع نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ آج کے حالات بہت اچھے نہیں ہیں، لیکن حالات تو تب بھی بہت برے تھے جب ایک ایسا فرعون بیٹھا تھا جس کے خلاف کوئی لب کشائی نہیں کر سکتا تھا۔ شہید بے نظیر بھٹو کی سیاسی جدوجہد کا مقصد آئین کی بحالی ہی تھا۔
ان کا آئین کی بحالی کا سفر اور جدوجہد 30 برس پر محیط ہے۔ ہم نے آئین کو بحال کیا۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی، ہماری اور دوسری پارٹیوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ آپ ہی بتائیے کہ توہین عدالت کا مطلب کیا یہ ہے کہ اگر کوئی کسی جج کے خلاف کچھ بولے تو آپ کو زندگی بھر کے لیے سزا ملے؟۔ کیا یہ اظہار رائے کی آزادی ہے؟۔ کیا اظہار خیال کی آزادی یہ ہے کہ آپ کوئی فیصلہ دے دیں، آپ وزیراعظم کو نکال دیں، آپ اٹھارہویں اور انیسویں ترمیم میں تبدیلی کریں اور ہم چوں تک نہ کر سکیں؟۔ ن کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے عوام کو گزشتہ کچھ عرصے سے دہشت گردی کا سامنا ہے، ہماری نسلوں نے جمہوریت کے لیے قربانیاں دی ہیں۔ بلاول بھٹو نے مزید کہا کہ ہمیں مکمل انصاف کا تصور بھٹو شہید کے ریفرنس کے بعد یاد آیا، آئینی ترمیم سے متعلق میں موجودہ چیف جسٹس کیلئے جدوجہد نہیں کر رہے، مجھے معلوم ہے کہ ملک میں انصاف ملنا کتنا بہت مشکل ہے، میرا نہیں آپ کا ایجنڈا کسی خاص شخصیت کیلئے ہوسکتا ہے، مجھے کوئی مسئلہ نہیں عمر عطا بندیال اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسی میں سے کوئی بھی آکر آئینی عدالتوں میں بیٹھے، مجھے بالکل امید نہیں تھی کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والا اس بات پر اعتراض کرے گا کہ ہمیں ایک ایسی آئینی عدالت ملنی چاہئے جس میں چاروں صوبوں کو برابر نمائندگی ملے۔انہوں نےک ہا کہ عدالتی اصلاحات کے منصوبے کو خراب کیا گیا، اگر میں 25 اکتوبر کے بعد انتظار کروں تو کیا 63 اے جیسا فیصلہ نہیں آئے گا؟ کیا ایسا نہیں کہا جائے گا کہ آئین کو آپ کو تو آپ نہیں ترمیم کرسکتے صرف ہمارے پاس اس کا اختیار ہے، آپ کیا یقین دلائیں گے کہ وہ ایک بار پھر یہ دھمکی نہیں دیں گے کہ پوری کی پوری 18 ویں ترمیم اڑا کر رکھ دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں عدالتی نظام اسی طرح رہےگا تو پھر ہم نہیں مانیں گے، ہمارے پاس پاکستان میں کبھی ایسی عدالت نہیں رہی جس نے کبھی پارلیمان یا کسی سیاستدان کو اجازت دی کہ ان کے بارے میں کوئی آئین سازی اور قانون سازی ہوسکے۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارا مطالبہ صرف آئینی عدالت کے قیام کا نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ عدالتی اصلاحات اور ججز کے تقرری کے طریقہ کار کو درست کرنے کا بھی ہے، ہر چیف جسٹس کی ابتدائی تقریر کی ویڈیو اور ٹیکسٹ نکال کر پڑھ لیں وہ سارے کہتے ہیں کہ ہم اپنے قوانین میں تبدیلی کریں گے اور آپ کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ میرٹ کے فیصلوں کا ذرا حال دیکھ لیں، سندھ ہائی کورٹ کی 13 اور لاہور ہائی کورٹ میں تقریبا 24 آسامیاں خالی ہیں لیکن معزز ججز صاحبان آپس میں بات نہیں کرتے، اتنے سارے کیسز ہیں اور ہر چند مہینے بعد کوئی سیاسی مسئلہ اٹھ جاتا ہے جہاں پوری وکلا اور عدالت کا دھیان ان کی طرف چلا جاتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ آئینی عدالت سے نہ صرف عام آدمی کو جلدی اور فوری انصاف ملے گا بلکہ اس میں موجود ججز کی تمام توجہ آئینی معاملات کو دیکھنے پر مرکوز ہوگی اور اگر یہ نہیں کر پائے تو پھر بار ایسوسی ایشن میں موجود لوگ ان کا احتساب کریں گے۔بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم تو چاہتے ہیں کہ ججز کی مدت ملازمت کا ایک مخصوص وقت ہو جبکہ کچھ اور لوگ چاہتے ہیں کہ اس کے لیے عمر کے حد کو مقرر کیا جائے، وہ سمجھتے ہیں کہ ہم حکومت کے ساتھ آئینی عدالت کے حوالے سے جو سمجھوتہ کرچکے ہیں وہ تو ناکافی ہے، میں چاہتا ہوں کہ صوبائی سطح پر بھی آئینی عدالت ہونی چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ میں ایک ایسا نظام بنانا چاہتا ہوں جس میں عدالتیں ایک رات میں نہیں لیکن کچھ وقت کے بعد تحفظ فراہم کرسکیں، یہ ایک چیف جسٹس کی تقرری سے نہیں بلکہ اداروں کی مضبوطی سے ہوگا۔انہوں نے وکلا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی اور صوبائی سطح پر آئینی عدالت بنانی ہوگی اور ہمیں مقدس گائے کے تصور کو جس جگہ بھی ہوں ختم کرنا ہوگا، رات کے اندھیرے میں اگر کوئی چیز کرنی ہوتی تو رات کے اندھیرے میں ہی یہ کام ہوتا اور میں کسی بھی چیز سے پیچھے نہیں ہٹ رہا۔
ان کا کہنا تھا کہ فوجی عدالتوں کا تصور بار بار اس لیے آتا ہے کیونکہ کہا جاتا ہے عدالتی نظام دہشت گردوں کو سزا نہیں دے سکتا اور جب ججز پر اس سے سوال ہوتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ وکلا اور پراسیکیوشن برے ہوتے ہیں۔بلاول بھٹو نے کہا کہ آئینی عدالت بنانے کا مقصد کسی جج کو فکس کرنا نہیں ہے بلکہ یہ بنیادی ضرورت ہے اور میں اس کے لیے کوشش کرتا رہوں گا۔