دمشق( نمائندہ خصوصی )سیریئن آبزرویٹری نے اعلان کیا ہے کہ حلب اور ادلب کے دیہی علاقوں میں ہونے والی لڑائیوں میں شامی فوج اور مسلح دھڑوں کے 200 ارکان مارے گئے ہیں۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق شام کی وزارت دفاع نے اعلان کیا کہ مسلح تنظیموں نے کل حلب اور ادلب کے دیہی علاقوں میں ایک بڑا حملہ کیا اور وہ اس حملے کا مقابلہ کر رہی ہے۔ شامی تنظیموں کا کہنا تھا کہ انھوں نے ادلب کے جنوب میں جبل الزاویہ میں سرکاری فوج کے ٹھکانوں پر حملہ شروع کر دیا اور حلب کے مغرب میں واقع مھندسین الثانی کے دیہی علاقوں پر بھی اپنے کنٹرول کا اعلان کر دیا ہے۔
شامی آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے ایک نئے اعداد و شمار کے مطابق جھڑپیں ملک کے شمال مغرب میں دونوں فریقوں کے درمیان ایک ایسے وقت میں شروع ہوئیں جب شام کی وزارت دفاع نے حلب اور ادلب ک دیہی علاقوں میں ایک بڑے حملے کو پسپا کرنے کی اطلاع دی۔آبزرویٹری نے اطلاع دی ہے کہ 24 گھنٹوں سے جاری لڑائیوں کے دوران مرنے والوں کی تعداد 132 ہوگئی ہے۔ جن میں ھیئہ تحریر الشام کے 65، قومی فوج کے دھڑوں کے 18 اور حکومتی فورسز کے 49 ارکان شامل ہیں۔ آبزرویٹری کے مطابق یہ لڑائیاں جو ادلب اور حلب کے دیہی علاقوں میں ہو رہی ہیں اس خطے میں برسوں سے پرتشدد سمجھی جارہی ہیں۔ یہ حلب شہر کے مضافات سے تقریبا 10 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع علاقوں میں ہو رہی ہیں۔آبزرویٹری نے کہا کہ یہ دھڑے مغربی حلب کے دیہی علاقوں اور مشرقی ادلب کے دیہی علاقوں میں پیشرفت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے جہاں انہوں نے حلب – دمشق بین الاقوامی سڑک کے قریب ہونے کی وجہ سے سٹریٹجک اہمیت کے حامل دیہاتوں پر کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔ادلب اور اس کے گردونواح میں 6 مارچ 2020 سے جنگ بندی نافذ ہے۔ اس کا اعلان ماسکو، جو دمشق کی حمایت کرتا ہے، اور انقرہ ، جو دھڑوں کی حمایت کرتا ہے، دونوں کی طرف سے کیا گیا تھا۔ اس کے بعد روس کی حمایت سے حکومتی افواج کی طرف سے ایک بڑے حملے کا آغاز کیا گیا تھا۔ وقتا فوقتا یہ خطہ متعدد فریقوں کی طرف سے باہمی بمباری کا نشانہ بناتا ہے۔ دمشق اور ماسکو کے حملوں کا نشانہ بھی بنتا ہے۔ لیکن جنگ بندی اب بھی بڑی حد تک برقرار ہے۔ 2011 کے بعد سے شام ایک خونریز تنازع کا مشاہدہ کر رہا ہے جس میں نصف ملین سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ یہ تنازع بنیادی ڈھانچے کی بڑے پیمانے پر تباہی اور ملک کے اندر اور باہر لاکھوں لوگوں کی نقل مکانی کا باعث بنا ہے۔