کووڈ انیس

کووڈ انیس کی نئی قسم کا پتہ لگانے کی عالمی دوڑشروع’تمام ممالک دبائو کا شکار

لندن (گلف آن لائن)دنیا بھر کے ممالک کی حکومتیں کووڈ انیس انفیکشن کا ڈیٹا بیس اکٹھا کرنے ، مسافروں کی اسکریننگ اور کورونا کے نئے ویرینٹ کے وائرل جینوم کی ڈی کوڈننگ کی تیز رفتار دوڑ میں شامل نظر آ رہی ہیں۔اس وقت دنیا کے ہر خطے میں حکومتیں جس تیز رفتاری سے ان عوامل پر عمل پیرا ہیں اْس سے اْس دباؤ کی نشاندہی ہو رہی ہے جو اب حکومتی سطح پر نمایاں نظر آ رہا ہے۔ اب حکام کو ایک اہم امر کا فیصلہ اور اپنی سمت کا تعین کرنا ہے، وہ یہ کہ وہ غیر مقبول اور معاشی طور پر نقصان دہ اقدامات سے گریز نہ کریں کیونکہ یہ وقت کی ضرورت ہے ، یا کورونا کے نئے ویرینٹ اومیکرون کے پھیلاؤ کو نظر انداز کریں۔

اسکاٹ لینڈ اور سنگا پور اپنے ہاں اب تک کے ہزاروں کی تعداد میں تصدیق شدہ کووڈ انیس کیسز کی مزید جانچ پڑتال کر رہے ہیں تاکہ یہ پتا چلایا جا سکے کہ کہیں اب تک کی تحقیق اور ٹیسٹ میں نئے ویرینٹ کی تشخیص میں کہیں کوئی کوتاہی تو نہیں رہ گئی۔اْدھر امریکا کووڈ انیس کی نگرانی کے طریقہ کار کو مزید جدید اور اس کی فعالیت میں اضافے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ اومیکرون ویرینٹ کے دیسی یا گھریلو کیسز اور غیر ملکی کیسز میں فرق معلوم کیا جا سکے۔بھارتی کورونا برطانوی اور برازیلوی وائرس سے زیادہ خطرناک ہےـ یورپی یونین کی ہیلتھ کمشنر نے تمام ممبر ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے ہاں اس نئے کورونا ویرینٹ کی تشخیص کو تیز رفتار بنائیں۔

ایک ایسے وقت میں یہ اقدام ناگزیر ہیں کیونکہ بہت سے رکن ممالک کورونا وبا کے سبب دو سال پیچھے ہیں۔ یورپی یونین کی ہیلتھ کمشنر یونانی سیاستدان اور ماور امراض نفسیات اسٹیلا کریا کیڈس نے تمام 27 ممبر ممالک کے وزرائے صحت کے نام ایک خط میں متنبہ کیا کہ تمام ممالک اس وقت شدید دباؤ کا شکار ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ہم پہلے ہی سے موسم سرما کی شدت کے سبب ڈیلٹا ویرینٹ کے پھیلاؤ کے چیلنج کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہم پر اب اومیکرون ویرینٹ کا اضافی بوجھ پڑ رہا ہے۔یاد رہے کہ یورپی بلاک کے 10 ممالک میں اب تک کورونا ویرینٹ کے 42 کیسز کی تصدیق ہو چْکی ہے۔

سائنسی ڈیٹا سے پتا چلا ہے کہ اومیکرون کی سرکاری طور پر تشخیص سے پہلے سے ہی یہ وائرس گردش کر رہا تھا۔ گزشتہ ہفتے جنوبی افریقہ میں ویرینٹ اومیکرون کی شناخت کی خبرعام ہوئی تھی اور اس کے بعد سے دنیا کے ایک درجن سے زائد ممالک میں اس کی موجودگی کا پتا چل چْکا ہے۔ اس امر کی مستند معلومات حاصل کرنے میں ابھی کئی ہفتے لگیں گے کہ آیا یہ ویرینٹ زیادہ متعدی، مہلک اور ویکسین کے اثرات سے بچ نکلنے والا وائرس ہے یا نہیں؟برطانیہ اور دنیا کی دیگر بڑی معیشتوں نے جنوبی افریقہ کو جانے اور وہاں سے آنے والی تمام تر پروازوں پر فوری طور پر پابندی لگا دی کیونکہ جنوبی افریقہ میں کورونا وائرس کے مبینہ طور پر زیادہ خطرناک ویرینٹ اومیکرون کی موجودگی کا سب سے پہلے پتا چلا تھا۔

دنیا کی بڑی معیشتوں کے سفری پابندیاں لگانے کے نتیجے میں عالمی مالیاتی منڈیوں میں ہلچل مچ گئی اور اس کے دور رس نتائج مرتب ہوں گے۔اس بار اس وبا کے خلاف ہر خطے میں کی جانے والی کارروائیوں کی رفتار اْس کے بالکل برعکس ہے جو ماضی میں سامنے آنے والے ویرینٹس مثال کے طور پر ستمبر 2020 ء میں برطانیہ میں دستاویزی ثبوت کے ساتھ سامنے آنے والے ویرینٹ ”الفا” کے بعد تھی۔ تب لندن حکومت نے ملک گیر سطح پر لاک ڈاؤن لگانے سے پہلے الفا ویرینٹ کے ڈیٹا اکٹھا کرنے اور اس کے مہلک ہونے کا اندازہ لگانے میں مہینوں لگا دیے تھے۔ بعدازاں دسمبر میں لاک ڈاؤن کا نفاذ ہوا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں