اسلام آباد(گلف آن لائن)وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا ہے کہ پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈیا پروفیشنلز بل کی منظوری کے بعد اخبارات اور ٹی وی چینلز کے مالکان اس عمل کے پابند ہیں وہ اپنے دفاتر کے تمام ملازمین ( صحافیوں اور میڈیا ورکرز ) کی فوری طور پر انشورنس کرائیں، قانون کے مطابق مستقل ملازمین کے ساتھ ساتھ کنٹریکٹ ملازمین کی بھی انشورنس کرانا ہوگی، فوٹو جرنلسٹس اور ویڈیو جرنلسٹس ، سب ایڈیٹرز اور ایڈیٹرز کو بھی جرنلسٹ کیٹگری میں شامل کر دیا جائیگا، جرنلسٹ پروٹیکشن بل صرف جرنلسٹس کیلئے ہی نہیں بلکہ تمام میڈیا پروفیشنلرز کیلئے ہے۔
انہوں نے ان خیالات کا اظہار نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں جرنلسٹس پروٹیکشن بل کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا، وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ یہ بل ڈھائی سال کی شبانہ روز محنت اور تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت کے بعد منظور کریا گیا ہے، ویڈیو جرنلسٹس اور فوٹو جرنلسٹس کے تحفظات سے آگاہ ہیں بل میں رہ جانیوالے قانونی سقم کو اسٹیک ہولڈرز کی مزید مشاورت کے بعد رولز بنانے وقت دور کر دیا جائیگا، بل کی تیاری میں وزیراعظم عمران خان کی جانب سے پوری سپورٹ حاصل رہی اور بل بنانے کے دوران ہر آنے رکاوٹ کو انہوں نے دور کرنے میں مدد فراہم کی جبکہ بل کی تیاری میں وفاقی وزیر اطلاعات فواد حسین چوہدری کی خصوصی کاوشیں اور پوری کابینہ کی دلچسپی بھی شامل ہیں، انہوں نے کہا کہ یہ بل اب قانون بن چکا ہے اور جن جرنلسٹس کو اپنے حقوق حاصل کرنے میں کوئی مسئلہ ہے وہ حصول انصاف کیلئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکتے ہیں، میڈیا مالکان پر اپنے ورکرز کو سیکیورٹی فراہم کرنے کے حوالے سے بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہیں لہذاٰ انہیں اس ذمہ داری کو نبھانا چاہیئے، جرنلسٹس کے حقوق کیلئے ایک کمیٹی بنائی جائیگی جس میں تین خواتین کو بھی شامل کیا جائیگا جبکہ اس کمیٹی میں تمام نمائندہ صحافتی تنظیموں بشمول، نیشنل پریس کلب، پی ایف یو جے، آر آئی یو جے، پی آر اے، سپریم کورٹ رپورٹرز ایسوسی ایشن رینجنل اور ڈسٹرکٹ لیول تک کے نمائندگان سے مشاورت کی جائیگی، اس موقع پر پی ایف یو جے کے سیکرٹری ناصر زیدی نے کہا کہ احتجاج ہمارا شوق نہیں ہے ہم پریس کی آزادی اور ورکرز کے حقوق کیلئے نعرہ حق بلند کرتے ہیں، اس بل کا اہم حصہ ٹریبونل تھا جس میں پبلک کی شولیت کو اہمیت دی گئی ہے، ڈاکٹر شریں مزاری جرنلسٹس کیلئے توانا آواز ہیں، بل کے حوالے سے ڈاکٹر صاحبہ سے کئی مٹینگز ہوئیں ہم نے اپنی سفارشات تحریری صورت میں کمیٹی کو پیش کیں، ہم نے فوٹو گرافرز، ویڈیو جرنلسٹس، پروڈیوسرز، کاپی رائٹرز کو جرنلسٹس کیٹیگری میں شامل کرنے کی شفارس کی تھی، ہماری سفارشات آج بھی کمیٹی کے ریکارڈ میں موجود ہیں، ہم مسائل کو مل بیٹھ کر حل کرنے کے خواہشمند ہیں، امید ہے کہ بل کے حوالے سے جو خدشات پیدا ہوئے ہیں وہ حل ہونگے،
اس موقع پر پی ایف یو جے کے سابق صدر افضل بٹ کا کہناتھا کہ ہم کسی حکومت کے مخالف نہیں ہیں،ہم پریس اور ورکرز کے حقوق کی بات کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے، جو بھی طاقت جرنلسٹس کے حقوق کو سلب کرنے کی کوشش کرے گی ہم اس کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور جو حکومت جرنلسٹس کیلئے سہولیات فراہم کرتی ہے ہم اسکا شکریہ ادا کرتے ہیں، ہم نے نواز شریف کا آٹھویں ویج بورڈ بنانے پر بھی شکریہ ادا کیا تھا اور جرنلسٹس پروٹیکشن بل بنانے پر وزیر اعظم عمران خان، وفاقی وزیر اطلاعات فواد حسین چوہدری اور ڈاکٹر شریں مزاری کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں، جو لوگ پی ایف یو جے کے آئین کے مطابق جرنلسٹ کی تعریف پر پورے اترتے ہیں وہ انشاء اللہ ضروردوبارہ اس بل میں شامل ہونگے، تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر این پی سی شکیل انجم کا کہنا تھا کہ فوٹو گرافرز اور ویڈیو جرنلسٹس جرنلزم میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں،انکے بغیر جرنلز نہیں ہو سکتی، جرنلسٹس پروٹیکشن بل کے حوالے سے پی ایف یو جے نے چوالیس میں سے پینتیش ترامیم پیش کی تھیں جن میں سے اکیس منظور کی گئی ہیں، ہم نے بل دیکھا تو فوری طور پر ڈاکٹر شریں مزاری سے رابطہ کیا اور انہیں اس بل کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہم انکے احسان مند ہیں کہ انہوں نے ہمارے تحفظات کو دور کرنے کا وعدہ کیا ہے،
سیکرٹری انور رضا نے اپنے خطاب میں کہا کہ بل کی منظوری میں وزیراعظم عمران خان اور ڈاکٹر شریں مزاری سمیت ناصر زیدی ، حامد میر، ناصر ملک ، مظیر عباس وغیرہ کا اہم کردار ہے، بل میں کمیرہ مین اور فوٹو گرافرز کے حوالے سے جو خامی رہ گئی ہے اسے درست کیا جائے اور اس حوالے سے بنائے جانے والے کمیشن میں سینئر اور نامور لوگوں کو شامل کیا جائے، تقریب سے آر آئی یو جے کے صدر عامر سجاد سید، صدر رپجا سہیل ملک، صدر وی جے اے نوشاد عباسی، سینئر خواتین صحافیوں ماہر عمران اور نیئر علی نے بھی خطاب کیا، تقریب کے آخر میں وفاقی وزیر کو یادگاری شیلڈ بھی پیش کی گئی، تقریب میں صحافتی تنظیموں کے نمائندوں، سینئر صحافیوں، فوٹو جرنلسٹس اور ویڈیو جرنلسٹس کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔
٭٭٭٭٭