مصطفی کمال

الیکشن کمیشن کے اختیارات کو سندھ کے بلدیاتی سسٹم سے نکالنے کی پیپلز پارٹی کی سازش صرف سندھ کا ہی نہیں سیکیورٹی اور اکانومی کا مسئلہ ہے، مصطفی کمال

اسلام آباد (گلف آن لائن)پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) کے سربراہ مصطفی کمال نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اختیارات کو سندھ کے بلدیاتی سسٹم سے نکالنے کی پیپلز پارٹی کی سازش صرف سندھ کا ہی نہیں بلکہ پاکستان کی سیکیورٹی اور اکانومی کا مسئلہ ہے، آصف علی زرداری اور بلاول زرداری بھٹو مفاہمت کے نام پر سندھ کو اپنی جاگیرسمجھتے ہیں اوراپنی اسمبلی اکثریت کی بنیاد پر اپنا الیکشن کمیشن بنانا چاہتے ہیں جو کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 140(2)A کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے، سندھ حکومت نے تعلیم، اور صحت سمیت تمام بڑے اور اہم محکموں کو میٹرو پولیٹن کارپوریشن کراچی کے دائرہ کار سے واپس اپنی تحویل میں لے لیا ہے،

نئے سندھ لوکل گورنمنٹ ترمیمی بل میں پیپلز پارٹی بلدیاتی قانون میں اسمبلی میں جائے بغیر صرف ایک نوٹیفیکشن کے ذریعے تبدیل کرنے کی مجاز ہوگی جو کہ آئین پاکستان کا تمسخر اڑانے کے مترادف ہے، ایسی صورت میں اب آئین پاکستان میں تین ترامیم لازم ہو گئی جن میں این ایف سی ایوارڈ کو براہ راست صوبائی حکومت کی سطح پر پی ایف سی ایوارڈ کے ذریعے منتقل کرنے کیلئے اقدامات کئے جانے ضروری ہیں، لوکل گورنمنٹ کے اختیارات اور زیراثر محکموں کو آئین پاکستان میں شامل کرکے انکے اختیارات کو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرح واضح طور پر لکھا جانا چاہیئے جبکہ بلدیاتی انتخابات کے بروقت انعقاد کیلئے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کو بلدیاتی انتخابات سے مشروط کیا جائے، نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں پارٹی صدر انیس قائم خانی، وائس چیئرمین حفیظ الدین، آسیہ اسحاق اور اسلام آباد کے پارٹی صدر شہزاد کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے مصطفےٰ کمال کا یہ کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی سندھ پرگذشتہ تیرہ سالوں سے برسر اقتدار ہے جو کہ سندھ دھرتی کو اپنی جاگیر بنا رہی ہے اور اسمبلی اکثریت کی بنیاد پر اپنا الیکشن کمیشن بنانا چاہتی ہے جو کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 140(2)A کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے، سندھ کے نئے بلدیاتی ترمیمی بل میں بلدیاتی نمائندوں سے تمام اختیارات واپس لے لئے ہیں،

صرف یہی نہیں بلکہ سندھ حکومت نے تعلیم، اور صحت سمیت تمام بڑے اور اہم محکموں کو میٹرو پولیٹن کارپوریشن کراچی کے دائرہ کار سے واپس اپنی تحویل میں لے لیا ہے، جن میں کراچی ماسٹر پلان ڈیپارٹمنٹ، کراچی ماس ٹرانزٹ، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، کے ڈی اے، ، کراچی سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ، کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ اور لینڈ/ ریونیو کنٹرول بھی شامل ہیں،2001ء میں 47 محکمے اور ان محکموں کے اختیارات بلدیاتی اداروں کے پاس تھے جو کی تعداد اب صرف 21 رہ گئی ہے، نئے سندھ لوکل گورنمنٹ ترمیمی بل میں پیپلز پارٹی بلدیاتی قانون میں اسمبلی میں جائے بغیر صرف ایک نوٹیفیکشن کے ذریعے تبدیل کرنے کی مجاز ہوگی جو کہ آئین پاکستان کا تمسخر اڑانے کے مترادف ہے،الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اختیارات کو سندھ کے بلدیاتی سسٹم سے نکالنے کی پیپلز پارٹی کی سازش صرف سندھ کا ہی نہیں بلکہ پاکستان کی سیکیورٹی اور اکانومی کا مسئلہ ہے،

انہوں نے مزید کہا کہ سندھ حکومت کا یہ دعویٰ کہ وہ بلدیاتی ادوروں کو مزید اختیارات دے رہے ہیں ایک مذاق کے سوا کچھ نہیں ہے، پیپلز پارٹی گذشتہ تیرہ برسوں میں سندھ کے باسیوں کو پینے کا پانی تو دے نہیں سکی، یہ اس شہر کا مسئلہ ہے جو ملک کو ستر فیصد ریونیو اکٹھا کر کے دیتا ہے۔ ایسی صورت میں اب آئین پاکستان میں تین ترامیم لازم ہو گئی جن میں این ایف سی ایوارڈ کو براہ راست صوبائی حکومت کی سطح پر پی ایف سی ایوارڈ کے ذریعے منتقل کرنے کیلئے اقدامات کئے جانے ضروری ہیں، لوکل گورنمنٹ کے اختیارات اور زیراثر محکموں کو آئین پاکستان میں شامل کرکے انکے اختیارات کو وفاقی اورصوبائی حکومتوں کی طرح واضح طور پر لکھا جانا چاہیئے، لہذاٰ یہ اب وفاق، عدلیہ سمیت تمام ارباب اختیار کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مسئلے پر توجہ دیں تاکہ ملک کو بچایا جا سکے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں