کراچی(گلف آن لائن)مقامی کاٹن مارکیٹ میں گزشتہ ہفتے کے دوران ٹیکسٹائل ملز کی روئی کی محتاط خریداری اور جنرز کی اونچے دام پر روئی کی فروخت جاری رہنے کے سبب روئی کے بھا ئومیں مجموعی طورپر تیزی کا عنصر غالب رہا۔ کوالٹی کاٹن کا بھائو فی من19500 تا 20000 روپے رہا۔ روئی کا اسٹاک کم ہوتا جارہا ہے جس کے باعث کاروباری حجم کم رہا۔ ایک بین الاقوامی کمپنی بھی اپنے اسٹاک میں سے روزانہ روئی فروخت کررہی ہے اس طرح گاہے گاہے ملک میں روئی کا اسٹاک کم ہوتا جارہا ہے ذرائع کے مطابق فروری کے بعد ملک میں روئی نایاب ہوجائے گی جبکہ نئی فصل کا جزوی آغاز جون کے مہینے میں ہوسکے گا گو کہ اس سال پاس کے کاشتکاروں کو پھٹی کی بہترین قیمت حاصل ہونے کی وجہ سے نسبتا پہلے ہی کاشت شروع کردیں گے ہوسکتا ہے مئی کے اواخر سے جزوی طور پر پھٹی کی آمد ہونا شروع ہوجائے گی۔
پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن کی 15 جنوری تک کی پاس کی پیداواری رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال کے اس عرصے کی پیداوار 54 لاکھ 98 ہزار گانٹھوں کے نسبت 73 لاکھ 84 ہزار گانٹھوں کی ہوئی جو 18 لاکھ 90 ہزار گانٹھیں 34.92 فیصد زیادہ ہے۔اپٹماکے ذرائع کے مطابق اس سال ٹیکسٹائل اسپننگ کی کئی ملز لگنے کی وجہ سے مقامی روئی کی ضرورت تقریبا ایک کروڑ 75 لاکھ گانٹھوں کی ہونے کی توقع ہے جبکہ ملک میں روئی کی کل پیداوار تقریبا 75 لاکھ گانٹھوں کے لگ بھگ ہوگی اس طرح ٹیکسٹائل اسپننگ ملز کی ضرورت پوری کرنے کیلئے بیرون ممالک سے روئی کی تقریبا 75 لاکھ گانٹھیں درآمد کرنی پڑیں گی۔
روئی کے درآمد نندگان کے مطابق فی الحال بیرون ممالک سے روئی کی تقریبا 50 لاکھ گانٹھوں کے درآمدی معاہدے ہوچکے ہیں انکے کہنے کے مطابق بین الاقوامی کاٹن مارکیٹوں میں خصوصی طور پر نیویارک کاٹن کے وعدے کا بھا بڑھ کر فی پانڈ 125 امریکن سینٹ کی 11 سالوں کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا تھا فی الحال 121 سینٹ پر چل رہا ہے جس کے باعث ٹیکسٹائل ملز گو کہ گاہے گاہے روئی کے درآمدی معاہدے کررہے ہیں لیکن ساتھ ساتھ اومی کرون، شپمینٹ کی مشکلات اور ڈالر کی غیر یقینی صورت حال کے سبب ٹیکسٹائل ملز میں گھبراہٹ نظر آرہی ہے علاوہ ازیں مقامی کاٹن کا بھا بھی بلند ترین سطح پر پہنچ جانے کی وجہ سے مالی بحران میں بھی دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
اپٹماکے ذرائع کے مطابق کاٹن کے بھا میں ہوشربا اضافہ کی وجہ سے کاٹن یارن Parity کم ہوگئی ہے۔ روئی کے نسبت یارن کے بھا میں اضافہ نہیں ہورہا جس کے باعث کاٹن یارن کی ڈیمانڈ بھی نسبتا کم ہوگئی ہے۔صوبہ سندھ میں روئی کا بھائو کوالٹی کے حساب سے فی من 16000 تا 20000 روپے پھٹی ختم ہوچکی ہے صوبہ پنجاب میں روئی کا بھائوفی من 17000 تا 20000 روپے پھٹی فی 40 کلو 6500 تا 8600 روپے سندھ و پنجاب میں بنولہ اور کھل کے بھائو میں اضافہ کا رجحان برقرار ہے۔ بلوچستان میں بھی روئی اور پھٹی ختم ہوچکی ہے۔ کراچی کاٹن ایسوسی ایشن کی اسپاٹ ریٹ کمیٹی نے اسپاٹ ریٹ میں فی من 300 روپے کا اضافہ کرکے اسپاٹ ریٹ فی من 19300 روپے کے بھائو پر بند کیا۔کراچی کاٹن بروکرز فورم کے چیئرمین نسیم عثمان نے بتایا کہ بین الاقوامی کاٹن مارکیٹوں میں اتار چڑھا ئوکے بعد مجموعی طور پر تیزی کا عنصر غالب رہا نیویارک کاٹن کے وعدے کا بھائو فی پائونڈ 125 سینٹ کی اونچی سطح پر پہنچ کر 121 امریکن سینٹ پر بند ہوئی۔
USDA کی ہفتہ وار سیلز اور ایکسپورٹ رپورٹ کے مطابق سیلز 2 لاکھ 73 ہزار گانٹھوں کی ہوئی جو گزشتہ ہفتہ کے نسبت 32 فیصد کم رہی پاکستان 62 ہزار 600 گانٹھیں خرید کر سر فہرست رہا۔ چین 62 ہزار 200 روپے خرید کر دوسرے نمبر پر رہا بنگلہ دیش 28 ہزار 100 گانٹھیں خرید کر تیسرے نمبر پر رہا 23-2022 کی سیلز 1 لاکھ 39 ہزار 200 گانٹھوں کی ہوئی پاکستان نے 95 ہزار گانٹھیں خریدی۔ برآمد ایک لاکھ 98 ہزار 700 گانٹھوں کی ہوئی جو گزشتہ سال کی برآمد کے نسبت 19 فیصد زیادہ ہے۔ چین 55 ہزار 200 گانٹھیں درآمد کرکے سر فہرست رہا۔ ویتنام 54 ہزار 200 گانٹھیں درآمد کرکے دوسرے نمبر پر رہا۔ پاکستان 13 ہزار 700 گانٹھیں درآمد کرکے چوتھے نمبر پر رہا۔برازیل، وسطی ایشیا، افریقہ اور سوڈان میں روئی کے بھائو میں مجموعی طور پر استحکام رہا جبکہ بھارت میں روئی کی پیداوار اولین تخمینہ سے 12 لاکھ گانٹھیں کم ہونے کا اندیشہ ہے۔
کاٹن ایسوسی ایشن آف انڈیا کے صدر اتول گناترہ نے ایک بیان میں کہا کہ بھارت کی روئی کی پیداوار کا تخمینہ 360.13 لاکھ گانٹھوں کا لگایا گیا تھا لیکن بارشوں اور گلابی سنڈی کے حملہ کی وجہ سے فصل کو نقصان اٹھانا پڑا فی الحال پیداوار کا نظر ثانی شدہ تخمینہ 348.13 لاکھ گانٹھوں کا لگایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ روئی کی ہپت میں بھی 10 لاکھ گانٹھوں کا اضافہ ہوچکا ہے جو پہلے 335 لاکھ گانٹھوں کا تھا بڑھ کر 345 لاکھ گانٹھوں کے ہونے کا توقع ہے اتول گناترہ کے کہنے کے مطابق اس سال بھارت کی ٹیکسٹائل ملز مثبت رہی۔پاکستان کی امریکہ کو برآمدی اشیا میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، رواں مالی سال کے پہلے چھ ماہ کی برآمدات 50 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔کراچی میں ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل مصنوعات کے برآمد کنندہ جاوید بلوانی کے مطابق برآمدات میں اضافے کا یہ رجحان گذشتہ کئی ماہ سے برقرار ہے۔
کمپنی کے علاوہ ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل کے شعبے میں امریکہ کو مال برآمد کرنے والی دوسری پاکستانی کمپنیوں کی برآمدات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ٹیکسٹائل مل کے مالک یاسین صدیق نے کہا کہ ان کے کارخانے میں تیار ہونے والا یارن امریکہ برآمد کیا جاتا ہے اور اگر اس مالی سال کے پہلے چھ مہینوں کو لیا جائے تو ان کی مل سے امریکہ برآمد کیے جانے والے یارن کی ایکسپورٹ میں تقریبا 25 فیصد تک کا اضافہ ہوا ہے۔ایکسپورٹرزکے مطابق کی امریکہ کو بھیجی جانے والی برآمدات میں اضافے کا مجموعی اثر امریکہ کی جانب برآمدات میں بھی دیکھنے میں آیا ، پاکستان کی ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے مطابق پاکستانی ایکسپورٹس نمایاں اضافے کے ساتھ بلند سطح کی جانب گامزن ہیں۔وزیرِ اعظم عمران خان کے مشیر تجارت رزاق داد کے مطابق امریکہ پاکستان کی برآمدات کی سب سے بڑی منڈی ہے جو صرف دسمبر کے مہینے میں 60 کروڑ ڈالر سے تجاوز کر چکی ہیں۔پاکستان سے امریکہ کو برآمد کی جانے والی مصنوعات میں ہوم ٹیکسٹائل، مردوں اور عورتوں کے ملبوسات اور یارن شامل ہیں، رواں مالی سال کے پہلے چھ مہینے میں 15 ارب ڈالر سے زائد کی برآمدات کی گئی ہیں۔
ٹیکسٹائل برآمد کنندہ کے مطابق امریکی مارکیٹ کو اس وقت سپلائی چاہیے تھی جو انڈیا اور بنگلہ دیش کے بند ہونے کی وجہ سے پوری نہیں ہو پائی تو بین الاقوامی خریداروں نے پاکستان کا رخ کیا۔ تو اس کے بعد وہ ابھی تک پاکستان کو آرڈرز دے رہے ہیں۔رپورٹ کے مطابق پاکستان نے گارمنٹس اور ٹیکسٹائل کے شعبے میں امریکہ برآمدات میں انڈیا کو پیچھے چھوڑ دیا ہے،گذشتہ مالی سال میں مجموعی برآمدات میں اضافہ 18 فیصد تھا اور اس میں صرف امریکہ کو برآمدات میں 17 فیصد اضافہ دیکھا گیا جو کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں پاکستانی برآمدات میں سب سے بڑا اضافہ تھا۔امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی تنازع کی وجہ سے جب امریکہ کی جانب سے چینی مصنوعات پر تجارتی ڈیوٹی بڑھائی گئی تو اس کا فائدہ بھی کچھ حد تک پاکستان کو ہوا۔ برآمدی شعبے کے افراد کے مطابق حکومت کی جانب سے اس شعبے کو کافی مدد ملی جیسا کہ توانائی کے نرخوں میں برآمدی شعبے کو ریلیف دیا گیا تو اسی طرح کم شرح سود پر برآمدی شعبے کو توسیع اور جدت سے ہمکنار کرنے کے لیے بھی مرکزی بینک کی جانب سے قرضے فراہم کیے گئے۔کراچی کاٹن ایسوسی ایشن کے چیئرمین خواجہ ایم زبیر نے گیس کے کم پریشر اور ای او ایس کو گیس سپلائی کی بندش پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے – سندھ اور بلوچستان کے “ایکسپورٹ اورینٹڈ سیکٹر” جو کہ مجموعی طور پر 52 فیصد سے زیادہ حصہ ڈال رہے ہیں۔
انہوں نے مشاہدہ کیا کہ گیس کے انتہائی کم پریشر اور سندھ اور بلوچستان کے حب کے علاقے میں واقع ای او ایس کو گیس کی مسلسل عدم فراہمی کی وجہ سے انڈسٹری کو چلانا بہت مشکل ہو گیا ہے۔انہوں نے مشاہدہ کیا کہ برآمدات کو بڑھانے اور ملک کے لیے قیمتی زرمبادلہ کمانے کے مقصد سے EOS کو سہولت فراہم کرنے کے حکومت کے ارادے کے باوجود انہیں گیس کی مکمل اور بلاتعطل فراہمی نہیں کی جا رہی ہے جس کے نتیجے میں مذکورہ دونوں صوبوں کے EOS اس قابل نہیں ہیں۔ اپنے پیداواری ہدف کو حاصل کرنے اور اپنے برآمدی وعدوں کو پورا کرنے کے لیے جس کی وجہ سے ان کے غیر ملکی خریدار اپنے آرڈرز کو دوسرے ممالک کی طرف موڑ سکتے ہیں۔سندھ اور بلوچستان کے EOS کو مکمل بندش سے بچانے کے لیے خواجہ ایم زبیر، چیئرمین KCA، حکومت پر زور دیتے ہیں کہ وہ قومی مفاد کے اس سنگین مسئلے میں فوری مداخلت کرے اور گیس سپلائی کرنے والی کمپنیوں کو ہدایت جاری کرے کہ وہ پہلے گیس فراہم کریں۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری سمیت EOS کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ اپنے پیداواری ہدف کو پورا کر سکیں، اپنے برآمدی وعدوں کو بغیر کسی رکاوٹ کے پورا کر سکیں اور ملکی معیشت کی ترقی میں اپنا اہم کردار ادا کرتے رہیں۔آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن نے وزیراعظم عمران خان پر زور دیا ہے کہ وہ مداخلت کریں اور سندھ اور بلوچستان کی برآمدات پر مبنی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو مکمل بندش سے بچائیں۔گیس کی قلت کے باعث دو صوبوں یعنی سندھ اور بلوچستان کی ایکسپورٹ اورینٹڈ ٹیکسٹائل انڈسٹری تقریبا ٹھپ ہو کر رہ گئی ہے۔
اپٹما سدرن زون کے چیئرمین آصف انعام نے کہا ہے کہ پاکستان کی ٹیکسٹائل کی مجموعی برآمدات میں سندھ اور بلوچستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹریز کا حصہ 52 فیصد سے زائد ہے، حکومتی وژن کے باوجود گیس کی فراہمی سے محروم ہیں، برآمدی صنعتوں کو گیس کی فراہمی کو ترجیح دی گئی ہے۔ دیگر صنعتوں کے مقابلے میں انہوں نے مزید کہا کہ سندھ اور بلوچستان کی صنعتوں کو گیس کی فراہمی پر ان کے قانونی حق سے محروم کیا جاتا ہے حالانکہ وہ قدرتی گیس کی فراہمی میں خود کفیل ہیں۔انہوں نے کہا کہ گیس کے انتہائی کم پریشر اور بار بار عدم دستیابی کی وجہ سے سندھ اور حب انڈسٹریل ایریا میں واقع ایکسپورٹ اورینٹڈ ٹیکسٹائل انڈسٹریز کے لیے ملز کو چلانا اور بروقت برآمدی وعدوں کو پورا کرنا بہت مشکل ہے۔چیئرمین اپٹما سدرن زون نے کہا کہ بلوچستان ہائی کورٹ کے حکم کے باوجود حب انڈسٹریل ایریا میں گزشتہ دو ماہ سے قائم صنعتی یونٹس کو صرف 25 فیصد گیس پریشر مل رہا ہے جو انڈسٹری چلانے کے لیے ناکافی ہے۔انہوں نے حکومت اور گیس سپلائی کرنے والی کمپنیوں پر زور دیا ہے کہ وہ پہلے ٹیکسٹائل سمیت برآمدی صنعتوں کو بغیر کسی رکاوٹ کے اپنی ملیں چلانے کے لیے گیس فراہم کریں تاکہ وہ اپنے برآمدی وعدوں کو بروقت پورا کر سکیں اور پھر اگر ان کے پاس کافی گیس موجود ہے تو دوسری صنعتوں کو گیس فراہم کی جائے بصورت دیگر ایکسپورٹ اورینٹڈ۔
ٹیکسٹائل انڈسٹری اپنی صنعتیں بند کرنے پر مجبور ہو گی کیونکہ گیس کی عدم دستیابی سے انہیں بھاری مالی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔آصف انعام نے وزیراعظم عمران خان سے مداخلت کرکے گیس کا مسئلہ حل کرنے کی درخواست بھی کی ہے تاکہ صنعتیں اپنا کام جاری رکھ سکیں۔دریں اثنا پاکستان یارن مرچنٹ ایسوسی ایشن سندھ و بلوچستان ریژن کے وائس چیئرمین محمد جنید تیلی نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ انڈسٹریز ایریاز میں گیس کا شدید بحران فوری طور پر ختم کیا جائے اور سندھ و بلوچستان کی انڈسٹریز جو توانائی کے بحران کی وجہ سے بند پڑی ہوئی ہیں انہیں بحال کیا جائے انہوں نے کہا کہ سائٹ اور کورنگی کا انڈسٹری ایریا کئی دنوں سے بند پڑا ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے دان سائزنگ کا خطرہ ہے گیس بحران کے باعث ایکسپورٹ آرڈرز کی تکمیل ناممکن ہوجائے گی۔