کراچی(گلف آن لائن) نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فورم وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدراورسابق صوبائی وزیرمیاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ گرتی ہوئی معیشت، بڑھتی بے روزگاری اوربڑھتے ہوئے تجارتی خسارے کے ساتھ اب حکومت کی آمدن اوراخراجات کا فرق بھی تشویشناک حد تک بڑھتا جا رہا ہے۔ جولائی سے دسمبرتک کا بجٹ خسارہ 1.8 کھرب روپے تک پہنچ چکا ہے جوگزشتہ سال کے مقابلے میں 29 فیصد زیادہ ہے۔ عوام روٹی کوترس رہے ہیں مگرحکومت شرح نموکو 5.37 فیصد تک پہنچانے کا دعویٰ کررہی ہے جوخوش فہمی سے زیادہ کچھ نہیں۔
اگرمعیشت ترقی کررہی ہوتی تو وباء کے دوران بے روزگاروں کی تعداد میں دوکروڑافراد کا اضافہ نہ ہوا ہوتا۔ میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ 2022 کے پہلے چھ ماہ کے دوران ترسیلات اوربرآمدات میں اضافہ کے باوجود کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ نوارب ڈالررہا ہے جس کی وجہ درآمدات کا نہ رکنے والا سلسلہ ہے جوانتہائی تشویشناک ہے۔ مرکزی بینک کے مطابق بارہ ماہ کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کے چار فیصد تک ہوگا تاہم غیرسرکاری اقتصادی ماہرین کے مطابق یہ چار فیصد سے بڑھ جائے گا۔ امسال چھ ماہ میں چھتیس ارب ڈالر سے زیادہ کی درآمدات کی گئی ہیں جوگزشتہ سال 23 ارب ڈالر تھیں۔ بچت کے بلند بانگ دعووں کے باوجود غیرترقیاتی اخراجات تین سال سے مسلسل بڑھ رہے ہیں مگرسابقہ حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت بھی اپنی آمدنی بڑھانے کے لئے موجودہ ٹیکس گزاروں اورعوام کونچوڑرہی ہے جبکہ ڈائریکٹ ٹیکس کوترجیح نہیں دی جا رہی ہے۔
موجودہ ٹیکس گزاروں اورعوام پربوجھ بڑھانے کی بھی ایک حد ہے جوگزرچکی ہے اوراب حکومت کوبراہ راست ٹیکس کا راستہ اپنانا ہوگا ورنہ قرضوں پرانحصاربڑھانا ہوگا۔میاں زاہد حسین نے مذیدکہا ہے کہ ملک میں اس وقت تیس لاکھ انتہائی امیراورایک کروڑکے لگ بھگ افراد ایسے ہیں جو ٹیکس ادا کرسکتے ہیں مگران سے ٹیکس مانگا نہیں جا رہا ہیاوروہ خود ادا کرنا نہیں چاہتے۔ حکومت کے پا س ان افراد کا ڈیٹا موجود ہے توکاروائی میں تاخیرکیوں کی جا رہی ہے یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔