بیجنگ (نمائندہ خصوصی)چین میں ایک بہت مشہور کہاوت ہے کہ “خواتین آدھے آسمان کو سنبھالتی ہیں”، جو عوامی جمہوریہ چین کے قیام کے فوراً بعد سرکاری میڈیا “پیپلز ڈیلی” میں شائع ہوئی۔ یہ کہاوت چین کے آنجہانی رہنما ماو زے تنگ کے قول،” وقت بدل گیا ہے، مرد اور خواتین ایک جیسے ہیں، جو کچھ مرد کر سکتے ہیں، خواتین بھی کر سکتی ہیں”،کے ساتھ نئے چین میں خواتین کے لیے صنفی مساوات کے حصول اور سماجی امور میں مکمل طور پر مشغول ہونے کے حوالے سے نمائندہ نعرہ بن گیا ۔
چینی میڈ یا نے ایک تبصرہ میں کہا ہے کہ حال ہی میں جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کا 49 واں اجلاس منعقد ہو رہا ہے۔ چین کی بیجنگ چھنگائی ایجوکیشن فاؤنڈیشن نے کانفرنس میں ایک تحریری تقریر پیش کی، جس میں صنفی مساوات کے فروغ اور خواتین کی ترقی کے لیے چین کی مسلسل کوششوں اور کامیابیوں پر روشنی ڈالی گئی۔ تقریر میں کہا گیا کہ عوامی جمہوریہ چین کے قیام کے بعد سے گزشتہ 70 برسوں کے دوران چینی حکومت اور مختلف سول تنظیموں نے خواتین کے انسانی حقوق اور مفادات کے تحفظ کو بہت اہمیت دی ہے اور خواتین کی برابری کو فروغ دینے میں بڑی پیش رفت حاصل کی ہے۔ جمہوری حقوق کے استعمال اور معاشی اور سماجی امور میں ہمہ گیر شرکت سے ،چین میں خواتین کی خوشحالی ، خود اعتمادی اور احساس تحفظ میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔
درحقیقت، چین میں ایک عام آدمی کے طور پر، آپ کے لیے مردوں اور عورتوں کے درمیان فرق کو محسوس کرنا مشکل ہے۔ کچھ بھاری دستی مشقت کے علاوہ، خواتین تقریباً تمام شعبوں میں مردوں کے برابر حصہ لے رہی ہیں، ایک چھوٹی کمپنی سے لے کر بڑی صنعتوں اور شعبہ جات تک ، پیشہ ور خواتین، منیجرز اور حتیٰ کہ اعلی سرکاری عہدیداروں کی ایک بڑی تعداد تمام سطحوں پر سماجی نظم و نسق اور انتظام و انصرام میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتے ہوئے ، مردوں کے ساتھ اہم سماجی ذمہ داریاں نبھاتی ہے۔ متعلقہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ چینی خواتین کی ملازمت کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے اور اس کے نتیجے میں معاشی آزادی نے خاندان میں خواتین کی حیثیت کو بہت بہتر کیا ہے۔
ورلڈ اکنامک فورم کی طرف سے جاری کردہ “2021 گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ” کے مطابق خواتین کی پیشہ ورانہ اور تکنیکی ملازمتوں کی شرح اور اعلیٰ تعلیم کے اندراج کی شرح کے لحاظ سے چین دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔عالمی اقتصادی فورم کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سعدیہ زاہدی نے اس بارے میں بات چیت کرتے ہوئے یہ خیال ظاہر کیا کہ “معاشی شراکت صنفی فرق کو ختم کرنے کے سب سے اہم محرکات میں سے ایک ہے، اور چین اس اشاریے میں G20 کیمعیشتوں میں سرفہرست ہے۔ چین کی معیشت کے حجم کو دیکھتے ہوئے، یہ اعداد و شمار مضبوطی سے بتاتے ہیں کہ چین صنفی فرق کو کم کرنے میں ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ ”
انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کی ترقی اور وسیع پیمانے پر استعمال کے ساتھ، معلومات کی ترسیل کے طریقوں میں تبدیلیوں نے انسانی حقوق کے تحفظ کی ترقی اور پیشرفت کو بہت فروغ دیا ہے۔ مردوں اور خواتین کی برابری اور خواتین اور بچوں کے حقوق کا تحفظ اب چینی عوام کی شعوری بیداری اور حقیقی اقدامات بن چکے ہیں۔ جب بھی متعلقہ واقعات سامنے آتے ہیں تو فوری طور پر انٹرنیٹ کے ذریعے وسیع پیمانے پر سماجی توجہ اور مذمت کی جاتی ہے۔ یہ خواتین اور بچوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے چینی معاشرے کے “زیرو ٹالرینس” کے رویے کی عکاسی کرتا ہے، اور خواتین اور بچوں کے انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے لوگوں کی اعلیٰ توقعات اور تقاضوں کی بھی عکاسی کرتا ہے۔
لیکن یہ کہنے کے بعد، ایک چینی مرد شہری کے طور پر، میں واقعی محسوس کرتا ہوں کہ چینی خواتین کی حیثیت دنیا میں سب سے بلند ہے، یہاں تک کہ ایک سروے میں کہا گیا ہے کہ آدھے سے زیادہ چینی خاندانوں میں جائیداد کی ذمہ داری خواتین کے ہاتھ میں ہیں۔ ایک اور مثال یہ ہے کہ بہت سے ممالک میں خواتین کو شادی کے بعد اپنے نام کے ساتھ شوہر کی کنیت لگانا پڑتی ہے، جو صنفی عدم مساوات کا اظہار ہے اور اس سے طلاق کے وقت بہت زیادہ پریشانی ہوتی ہے، لیکن چینی خواتین کو یہ مسئلہ نہیں ہوتا۔ مختلف چینی ورائٹی شوز میں ایک خاص قسم کا سکٹ شو ہوتا ہے جس میں سخت گیر بیویوں کو شوہروں کو ظلم کرتے دکھایا جاتا ہے،اور یہ مردوں کے لیے اپنا مذاق اڑانے کا موضوع بن گیا ہے۔ تو میں کہتا ہوں کہ چینی مردوں کے انسانی حقوق اور حیثیت کو بہتر بنانے کے لیے ابھی بہت طویل سفر طے کرنا ہے۔
میں مذاق کر رہا ہوں، اسے سنجیدگی سے نہ لیں۔