اسلام آباد (گلف آن لائن)اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا تو معاشرے کا عکاس ہوتا ہے، ہمارے معاشرے میں کیوں سوشل میڈیا پر بدتمیزی اور بدتہذیبی ہے۔ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پیکا ترمیمی آرڈی نینس کے خلاف پی بی اے و دیگر صحافتی تنظیموں کی درخواستوں پر سماعت کی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم ودود اور ڈپٹی اٹارنی جنرل طیب شاہ عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایف آئی اے میں 94 ہزار کیسز ہیں، 22 ہزار کیسز کا فیصلہ ہو چکا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ ایف آئی اے کی اتنی استعداد ہی نہیں ہے وہ اتنے تربیت یافتہ ہی نہیں ہیں، ایف آئی اے نے پبلک آفس ہولڈرز کی ساکھ کے تحفظ کیلئے مخصوص کارروائیاں کیں۔
قاسم ودود نے کہا کہ پیکا ایکٹ کے سیکشن 20 کو قانون میں موجود رہنا چاہیے، یہ صرف پاکستان میں نہیں دیگر ممالک میں بھی کچھ پابندیوں کے ساتھ موجود ہے، پبلک آفس ہولڈرز کی ذاتیات یا انکے رشتے داروں پر حملے نہیں ہونے چاہئیں، جو خرابیاں سامنے آئیں گی انکو وقت کے ساتھ ختم کیا جا سکے گا۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سوشل میڈیا تو معاشرے کا عکاس ہوتا ہے، ہمارے معاشرے میں کیوں سوشل میڈیا پر بدتمیزی اور بدتہذیبی ہے، بندوق سیلف ڈیفنس کیلئے ہوتی ہے لیکن کسی بندر کے ہاتھ دیدیں تو وہ خطرناک ہے، سوسائٹی میں عدم برداشت کا یہ مطلب نہیں کہ ایسے قانون بنائے جائیں جن کا غلط استعمال ہو سکے، اس عدالت کے سامنے جو کیسز ہیں ان میں ایف آئی اے کے اختیارات کا غلط استعمال ثابت ہو چکا ہے، ان کیسز میں اختیارات کا غلط استعمال کا ذمہ دار کس کو ٹھہرائیں، ایف آئی اے اختیارات کو صحافیوں کے خلاف غلط استعمال کیا گیا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ ایف آئی اے کے ان اقدامات کی وجہ سے قانون کو ختم نہیں کیا جانا چاہیے۔چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کسی کی فیملی کی تصویریں اجازت کے بغیر شیئر کر دی جائیں تو وہ سنجیدہ معاملہ ہے، سوشل میڈیا میں کسی کو بہکایا اور دھمکایا جائے تو وہ بھی اسی میں آتا ہے، بہکانے اور دھمکانے کی الگ سے سیکشن کیوں نہیں بنا دی گئی۔اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایف آئی اے سے زیر سماعت تمام کیسز میں رپورٹ طلب کرتے ہوئے کہا کہ ڈائریکٹر ایف آئی اے تمام کیسز کی رپورٹ کل عدالت میں جمع کرائیں۔ عدالت نے سماعت (آج) جمعہ تک ملتوی کر دی۔
٭٭٭٭٭