اسلام آباد(گلف آن لائن)پاکستان تحریک انصاف نے ملک بھر میں حلقہ بندیوں کی حد بندی کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ جانے کے بیان پر الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ اگلے عام انتخابات سے قبل حلقہ بندیاں آئینی ضرورت ہیں۔تفصیلات کے مطابق سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ٹوئٹر پر کہا کہ حلقہ بندیاں تب ہی ممکن ہے جب نئی مردم شماری کرائی جائے اور اعلان کیا کہ حلقہ بندی کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا۔ان کا مؤقف تھا کہ مردم شماری کے بغیر نئی حلقہ بندیاں کرنا آئین کی سنگین خلاف ورزی ہو گی اور الیکشن کمیشن انتخابی عمل کو متنازعہ بنانے کے مشن پر گامزن ہے تاہم الیکشن کمیشن کے عہدیدار نے بتایا کہ 2017 میں ہونے والی چھٹی قومی مردم شماری کے عبوری نتائج 3 جنوری 2018 کو شائع کیے گئے تھے اور اسی کے مطابق کمیشن نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی حد بندی کی تھی، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کیلئے عام انتخابات 2018 کے لیے آئین کے آرٹیکل 51(5) کے تحت ایک مرتبہ کا استثنیٰ فراہم کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 51(5) اور الیکشنز ایکٹ 2017 کے سیکشن 17 کے تحت حلقہ بندیاں سرکاری طور پر شائع ہونے والی آخری مردم شماری کے مطابق آبادی کی بنیاد پر کی گئیں۔انہوں نے نشاندہی کی کہ آئین میں 25ویں ترمیم کے تحت سابقہ فاٹا کو صوبہ خیبرپختونخوا میں ضم کیا گیا تھا۔فاٹا کیلئے مختص بارہ نشستیں ختم کر دی گئیں اور آبادی کی بنیاد پر خیبر پختونخوا کو چھ نشستیں دی گئیں، اس کے نتیجے میں قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 272 سے کم ہو کر 266 رہ گئی، اسی وجہ سے خیبر پختونخوا میں نئی حلقہ بندی لازمی تھی جو پاکستان کے ادارہ شماریات کی طرف سے مردم شماری کے سرکاری نتائج کی اشاعت نہ کرنے کی وجہ سے نہیں ہو سکی تھی۔الیکشن کمیشن نے 11 اپریل کو اگلے عام انتخابات کیلئے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی حلقہ بندیوں کے شیڈول کا اعلان کیا تھا جہاں اس سے قبل کمیشن کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا کہ وہ تازہ ڈیجیٹل مردم شماری کا انتظار نہیں کرے گا۔