اسلام آباد (گلف آن لائن) اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے کہاہے کہ وطن عزیز پاکستان کی ڈائمنڈ جوبلی کے سال میں بطور اسپیکر میرا انتخاب میرے لیے باعث مسرت ہے،معزز ایوان کی تعظیم و توقیر میں اضافہ میرا مطمع نظر اور اولین ترجیح ہے، اسپیکر کا منصب تمام تر غیر جانبداری اور بردباری کا متقاضی ہے ،ایوان کو طاقت کا سرچشمہ سمجھا جائے،ربر سٹیمپ نہیں،ریاست کے اداروں کے درمیان ادب، احترام اور باہمی مشاورت آئین پاکستان کی روح ہے، تمام اداروں کو اپنے اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کی مدد اور رہنمائی کرنی چاہیے، پارلیمان کی تمام پارلیمانی اور قائمہ کمیٹیوں کو فعال اور مضبوط کرنے کی ضرورت ہے ۔
عہدہ سنبھالنے کے بعد اظہار خیال کرتے ہوئے راجہ پرویز اشرف نے کہاکہ میں ربّ ذوالجلال کے سامنے انتہائی انکساری اور عاجزی کے ساتھ سر کو جھکاتا ہوں جس نے اپنے ایک ادنّا بندے کو ایسے باوقار منصب پر بٹھایا۔انہوںنے کہاکہ میں اپنے قائد، سیاستِ پاکستان کے مردِ حرآصف علی زرداری اور قائدِ عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو اور شہیدِ جمہوریت محترمہ بینظیر بھٹو سمیت جمہوریت کے ہزاروں شہیدوں کے وارث ، جناب بلاول بھٹو زرداری کا ممنون ہوں جنہوں نے خطہ پوٹھوہار کے ایک سیاسی کارکن کو اِس کرسی کا اہل جانتے ہوئے مجھے نامزد کیا۔انہوںنے کہاکہ میں قائدِ ایوان وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف، پارلیمانی زعما ء اسد محمود، مقبول صدیقی ، خالد مگسی، اختر مینگل ، طارق بشیر چیمہ ، غوث بخش مہر، نوابزادہ شاہ زین بگٹی، امیر حیدر ہوتی، اسلم بھوتانی، علی نواز شاہ اور محسن داوڑ سمیت اِس معزز ایوان کے ایک ایک رکْن کا انتہائی مشکور ہوں کہ آپ سب نے جمہوریئت ، حق اظہارِ رائے اور اِس معزز ایوان کی سربلندی کی جدوجہد میں شامل اپنے ایک دیرینہ ساتھی کو اہل پاکستان کی امنگوں کی ترجمان ،15ویں قومی اسمبلی کے بائیسویں اسپیکر کے طور پر بلا مقابلہ منتخب کیا۔
انہوںنے کہاکہ وطنِ عزیز پاکستان کے ڈائمنڈ جوبلی سال میں یہ انتخاب اِس لحاظ سے بھی تاریخ ساز اور یادگار رہے گا کہ یہ ہماری ملکی تاریخ کا پہلا واقعہ ہے کہ ایک سابق وزیر اعظم کو اِس محترم منصب کا اہل جانا ہے سو ہم نے اپنی پارلیمانی تاریخ میں ایک نئی رسم کا آغاز کیا ہے جہاں محض اقتدار کا جاہ و جلال ہی ہمارا مطمع نظر نہیں بلکہ اِس معزز ایوان کی تعظیم و توقیر بھی ہمارے پیشِ نظر ہے۔انہوںنے کہاکہ بطورِ اسپیکرمیں سمجھتا ہوں کہ یہی میرا سب سے بڑا چیلنج ہو گا میرے پیش نظر برطانوی تاریخ کے نامور مدّبر اور دا ر العوام کے مشہور اسپیکر ولیم لینتھل کے وہ تاریخی الفاظ بھی ہیں جب 1642 میں طاقت کے نشے میں چْور ایک جابر بادشاہ چارلس اول کے سامنے اسپیکر لینتھل اپنے پانچ ممبران کے تحفظ کیلئے سینہ سپر ہو گیا اور بادشاہ کو دو ٹوک الفاظ میں بتا دیا کہ اِس ایوان میں نہ تو میری اپنی کوئی آنکھ ہے جو دیکھ سکے اور نہ ہی اپنی کوئی زبان ہے جو بول سکے ماسوا اْس کے جو یہ ایوان مجھے دکھاتا اور مجھ سے بْلواتا ہے۔ اِس ایوان میِں مَیں فقط اِس ایوان کا خادم و وفادار ہوں۔ انہوںنے کہاکہ یہ ہے اسپیکر کا وہ جو کردار ، جو ساڑھے چار سو سال بعد بھی وہ تاریخ کا حصہ ہے۔انہوںنے کہاکہ اسپیکر کے عہدے سے توقع کی جانے والی تمام تر غیرجانبداری، اِس اہم منصب سے وابستہ بْردباری اور ایوان اور اِس کے ممبران کے تحفظ کے لیئے اسپیکر کے بطور”Custodian of the House”کی تمام روائیت صرف اور صرف اِس ایک واقعے سے برامد ہوتی ہے۔
انہوںنے کہاکہ یہی وجہ ہے کہ نہ ہمارے آئین اور نہ ہی قومی اسمبلی کے قوائد و ضوابط میں کہیں بھی کسٹوڈین کا لفظ موجود ہے تاہم یہ کردار اْسپیکرکے منصب کا جزوِ لاینفق ہے۔ انہوںنے کہاکہ میں یہ کیسے بھول سکتا ہوں کہ جس کْرسی کیلئے اِس معزز ایوان نے میرا بلا مقابلہ انتخاب کیا ہے، اْسی منصب پر سب سے پہلے ، قیام ِ پاکستان سے بھی تین روز قبل ، 11 اگست 1947 کو پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی نے بابائے قوم حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کو بلا مقابلہ اپنا پہلا سربراہ منتخب کیا تھا اور اسی مسند پر یہ ایوان شہید ذوالفقار علی بھٹو کو بھی منتخب کر چکا ہے، اپنے انتخاب کے موقع پرکیا گیا قائدِ اعظم کا خطاب جہاں مملکت پاکستان کا پہلا سرکاری اور قومی آئینی بیانیہ ہے وہیں ریاستی ڈھانچے میں مقننہ کے مرکزی کردار پر بھی مہر تصدیق ثبت کرتا ہے۔ اِس خطاب میں بانیِ پاکستان نے دو ٹوک الفاظ میں فرما دیا تھا ”یاد رکھئے کہ آپ خود مختار قانون ساز ادارہ ہیں اور آپ کو ہی تمام اختیارات حاصل ہیں۔
انہوںنے کہاکہ سو مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ بطور اسپیکر میری پہلی ذمہ داری اِس ایوان کی خودمختاری اور اِس کو حاصل اختیارات کا تحفظ ہو گا۔ میری ناقص رائے میں ایسا تبھی ہو سکتا ہے ،جب مملکت اور عوام کو درپیش تمام اہم مسائل کا فیصلہ اِس ایوان میں ہو، بند دروازوں کے پیچھے نہیں۔ انہوںنے کہاکہ جب آئین پاکستان کی دفعہ 91 کی ذیلی شق 6 کی حقیقی روح کو سامنے رکھتے ہوئے تمام وفاقی کا بینہ صرف اور صرف اِس معزز ایوان کو جوابدہ ہو۔ کسی فردِ واحد کو نہیں۔انہوںنے کہاکہ جب حکومتِ وقت عوام کے اِن منتخب نمائندوں کی رائے کو مقدم جانے اور اپنی پالیسیاں پوری دیانتداری سے اِس ہائوس اور اِس سے منسلک کمیٹیوں کے سامنے رکھے۔ اِس پر مسلط نہ کرے۔
انہوںنے کہاکہ ایوان کو طاقت کا سرچشمہ سمجھا جائے،ربر سٹیمپ نہیںانہوںنے کہاکہ ہمیں یاد رکھنا ہو گا کہ اہل ِ پاکستان نے مملکت کے مسائل کا حل تلاش کرنے کیلئے اِس ایوان کو منتخب کیا ہے سو مسائل کا حل باہمی مشاورت اور مکالمے میں ہے، نفرت، عدم برداشت اور نعرے کی سیاست میں نہیں۔ بحیثیت سیاسی کارکن، میری تربیت ایک ایسی جماعت میں ہوئی ہے جس کے قائد شہید ذوالفقار علی بھٹو نے دس اپریل 1973 کو پہلے متفقہ آئین کی منظوری کے موقعہ پر فرمایا تھا، ہمیں ایک ایسا سیاسی معاشرہ قائم کرنے کی ضرورت ہے ،جہاں مکالمے کو فروغ دیا جائے ، منافرت کو نہیں، جہاں مختلف خیالات میں سمجھوتہ ہو، محاذ آرائی نہیں، جہاں قومی اتفاق رائے کو فروغ دیا جائے، نفاق کو نہیں۔انہوںنے کہاکہ اور یہ تبھی ہو سکتا ہے جب حکومت عدوی اکثریت کی بنیاد پر نہیں بلکہ سب کو ساتھ لے کر چلنے کی بنیاد پر کی جائے۔ گزشتہ ساڑھے تین برسوں میں ہم یہ تواترْ سے کہتے آئے ہیں کہ یہ ایوان نامکمل ہے اگر اِس میں اپوزیشن کی آواز شامل نہیں، بطور اسپیکر میں اسے اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ اس ایوان میں اپوزیشن کی آواز کسی بھی حیلہ آزمائی سے دبائی نہ جائے بلکہ اْسے سْنا جائے اور اس کا احترام کیا جائے۔ ہمیں مسائل کو اِس ایوان میں لانا ہے۔ اِس ایوان سے باہر لے جا کر عوام کو تقسیم نہیں کرنا۔
سو انگریزی کا یہ مشہور معقولہ کہThe Majority may have its way but the Opposition MUST have its say.ہمیشہ میرے پیشِ نظر ہو گا۔انہوںنے کہاکہ ریاست کے اداروں کے درمیان ادب، احترام اور باہمی مشاورت آئین پاکستان کی روح ہے، تمام اداروں کو اپنے اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کی مدد اور رہنمائی کرنی چاہیے، اِس حوالے سے پارلیمان کی تمام پارلیمانی اور قائمہ کمیٹیوں کو فعال اور مضبوط کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہی اِس ایوان کی حقیقی طاقت ہیں۔ انہوںنے کہاکہ فی زمانہ پارلیمانی سفارت کاری ممالک کے درمیان مسائل کے حل کا بہترین ذریعہ ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اِس ایوان میں موجود ایسی کئی زیرک اور مدّبر شخصیات موجود ہیں جن کے ذریعے ہم خطّے اور عالمی سطح پر پاکستان اور اِس کے جمہوری اداروں کا وقار بلند کر سکتے ہیں۔
پارلیمانی فرینڈ شپ گروپس اور بین الپارلیمانی اداروں میں ہماری بھرپور شرکت سے یہ ہدف حاصل کیا جاسکتا ہے۔ انہوںنے کہاکہ ایک فعال پریس کے بغیر ایوان مکمل نہیں سو میں پارلیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشن کے بھر پور تعاون کا مشتاق ہوں اور سینئر صحافیوں کی راہنمائی بھی چاہوں گا۔ یقین رکھیئے کہ یہ ایوان حقِ اظہارِ رائے کا نگہبان اور محافظ ہے۔ انہوںنے کہاکہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے ایک فعال اور متحرک سول سوسائٹی کو حقیقی جمہوریت کی اساس قرار دیا تھا،سو بطور اسپیکر میری کوشش ہو گی کہ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پارلیمنٹری سروسز کی پلیٹ فارم سے بار کونسلوں، انسانی حقوق کی تنظیموں، مزدور تنظیموں اور طلبہ یونیز سے اِس پارلیمان کے روابط بحال رکھے جائیں۔انہوںنے کہاکہ خواتین کی موثر شمولیت اِس اسمبلی کی کامیابی کا راز ہے، میں توقع کرتا ہوں کہ خواتین ارکان پوری تندہی سے ایوان کی کارروائی میں حصہ لیں گی اور خواتین ارکان کے پارلیمانی کاکس کے ذریعہ پاکستان کی عورت کے حقوق کا دفاع کریں گی۔انہوںنے کہاکہ اقلیتی ارکان اور نوجوان ارکانِ اسمبلی کو میں اپنی حقیقی طاقت سمجھتا ہوں کیونکہ اِن معزز ارکان سے میں توقع رکھتا ہوں کہ عوام کے پسے ہوئے طبقات کے مسائل کو وہ بلا خوف و خطر اِس ایوان کے سامنے رکھتے رہیں گے۔
انہوںنے کہاکہ پاکستان وقت کے ایک اہم دوراہے پر کھڑا ہے جہاں اسے فیصلہ کرنا ہے کہ اسے ناامیدی کے اندھیروں سے نکل کر ایک حقیقی روشن خیال، سب کو ساتھ لے کر چلنے والے اور ترقی پسند پاکستان کو منتخب کرنا ہے یا بہتان تراشی اور منافرت کی نذر ہو کر تقسیم در تقسیم ہو جانا ہے۔ اور یہ فیصلہ بطور عوام کے منتخب نمائندے ، آپ سب کو کرنا ہے،مجھے اپنی متحد قومی قیادت کی صلاحیتوں پر کامل یقین ہے سو میرا ایمان ہے کہ امانتِ نور جن کے سینوں میں زندہ ہے، وہ حرفِ یقین لکھیں گے،ہماری تقدیر اور کوئی نہیں لکھے گا، ہمیں لکھیں گے۔