کا بل (نمائندہ خصوصی)اپریل میں عالمِ اسلام میں رمضان المبارک کا آغاز ہو گیا تھا، تاہم اس ماہ کے دوران گزشتہ چند دنوں میں افغانستان میں تواتر سے بم دھماکے ہوئے ہیں، جن میں بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہوئیں اور سکیورٹی کی صورتحال اب بھی مخدوش ہے۔ 29 اپریل کی شام کو کابل کی چھٹی پولیس ڈسٹرکٹ میں واقع مسجد خلیفہ صاحب میں بم دھماکہ ہوا۔
افغان عبوری حکومت کی وزارت داخلہ کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق دھماکے میں کم از کم 10 افراد ہلاک اور 20 سے زائد زخمی ہوئے تاہم عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد زیادہ ہو سکتی ہے۔
افغان سیاسی مبصر اور جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے رہنما سید جواد حسینی نے سی ایم جی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ معصوم شہریوں پر کیے جانے والے ان دہشت گردانہ حملوں کا مقصد بیرونی دنیا کو یہ احساس دلانا تھا کہ عبوری حکومت سکیورٹی کی صورتحال کو کنٹرول نہیں کر سکتی لہذا عوام میں خوف و ہراس پھیلایا جائے۔ سید جواد حسینی نے نشاندہی کی کہ افغانستان میں حالیہ دہشت گردانہ حملے الجھے ہوئے ہیں لیکن یہاں بعض عوامل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
پہلا یہ کہ افغانستان طویل عرصے سے غربت اور انتہا پسندی کا شکار ہے، جیسا کہ حالیہ حملوں سے دیکھا جا سکتا ہے، یہ حملہ آور انتہا پسند نظریات کے حامل ہیں۔ یہ اندھی مذہبی بنیاد پرستی کے ساتھ ایک انتہا پسند نظریہ ہے، جہاں حملہ آور اسلام کو اپنے مقاصد کے لیے ایک آلے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ افغانستان میں حالیہ دہشت گردانہ حملوں کا تعلق بھی گزشتہ سال اگست میں امریکی فوج کے “بوجھ اتار پھینکنے” والے طرزِ انخلاء سے ہے۔ سید جواد حسینی نے کہا کہ اس غیر ذمہ دارانہ روش کے برے نتائج تیزی سے نمایاں ہو رہے ہیں اور یہ دہشت گردی کے ناسور کے ایک مرتبہ پھر سے سر اٹھانے اور اس کی افغانستان میں واپسی کی ایک اہم وجہ بھی ہے۔