بیجنگ (نمائندہ خصوصی) امریکہ کے شہر بفیلو کی ایک سپر مارکیٹ میں فائرنگ کے واقعے میں 10 افراد ہلاک اور 3 زخمی ہو گئے۔ مشتبہ شخص، ایک 18 سالہ سفید فام شہری ہے ۔ اطلاعات کے مطابق جس علاقے میں فائرنگ کا واقعہ پیش آیا وہ افریقی نژاد امریکی شہریوں کا رہائشی علاقہ ہے۔
فائرنگ کی زد میں آنے والے 13 افراد میں سے 11 افریقی نژاد امریکی تھے۔یہ المناک واقعہ امریکہ میں جہاں آتشیں اسلحے کے دیرینہ پھیلاؤ کا براہ راست سبب ہے وہاں امریکہ میں منظم نسل پرستی اور نسلی امتیاز کا شاخسانہ بھی ہے، جسے امریکی طرز کے “انسانی حقوق” کے تحت بقا کے حق کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
ایک طویل عرصے سے، سیاسی پولرائزیشن، سماجی تقسیم، اور آتشیں اسلحے کی فروخت سے متعلق مالی مفادات امریکہ میں” گن وائلنس” کے پھیلاؤ کا باعث بنے ہیں۔ امریکہ کی آبادی دنیا کی محض 4 فیصد ہے لیکن دنیا کا 46 فیصد آتشیں اسلحہ امریکہ کے پاس ہے۔ پیو ریسرچ سینٹر کے سروے کے مطابق امریکہ میں گن وائلنس سے ہونے والی اموات کی شرح دیگر ممالک کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔محض ذاتی مفادات کی خاطر ایک امریکی بندوق ساز کمپنی نے بچوں کے لیے بھی ایک نیم خودکار رائفل تیار کی ہے۔یہ کس قدر گھناؤنا فعل ہے اور دکھ کی بات یہ ہے کہ اس بندوق کا پروٹو ٹائپ کئی مہلک فائرنگ واقعات میں استعمال ہوا ہے،جن میں ایک اسکول میں فائرنگ بھی شامل ہے جس میں 20 بچے ہلاک ہوئے تھے۔معاشرے میں آتشیں اسلحے کے پھیلاؤ سے نہ صرف عام لوگوں کے احساس تحفظ میں کمی آئی ہے،بلکہ تشدد بھی بڑھ چکا ہے۔
ملک میں اقلیتیں گن وائلنس سے زیادہ متاثر ہو رہی ہیں،پہلے ہی فنڈنگ اور دیگر معاونت کی کمی کی شکارکمیونٹیز میں فائرنگ سے متاثر ہونے والوں کی اکثریت ، نوجوان افریقی امریکی اور لاطینی امریکی ہیں۔ اس کے پیچھے امریکہ میں طویل عرصے سے جاری منظم نسل پرستی اور نسلی امتیاز ہے۔ 25 مئی 2020 کو افریقی نژاد امریکی شہری جارج فلائیڈ ایک سفید فام پولیس اہلکار کے ہاتھوں تشدد سے ہلاک ہوا تھا ۔کورونا وائرس سے متاثرہ ایک افریقی نژاد امریکی خاتون ڈاکٹر سوسن مور کو گردن میں شدید درد اور سانس لینے میں دشواری پیش آئی لیکن ہسپتال نے درد کش ادویات فراہم کرنے سے انکار کر دیا ۔
سوسن مور اسی بے چارگی کی کیفیت میں 20 دسمبر 2020 کو انتقال کر گئی۔ انتقال سے قبل سوسن مور نے ایک درد بھرا جملہ اپنے پیچھے چھوڑا : “اگر میں سفید فام ہوتی تو مجھے آج اس صورتحال سے دوچار نہ ہونا پڑتا”۔ امریکہ میں، سفید فام بالادستی معاشرے کے تمام پہلوؤں پر حاوی ہے، اور اقلیتوں کے بنیادی انسانی حقوق کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔
درحقیقت نہ صرف اقلیتیں ،بلکہ بیشتر امریکیوں کو بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ حاصل نہیں ہے۔ امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق 4 مئی تک امریکہ میں کووڈ-۱۹سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 10 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے ،تاہم وائٹ ہاؤس نے 12 مئی تک اس المناک سنگ میل پر کوئی بیان جاری نہ کیا۔ وبا پھیلنے کے بعد امریکی سیاست دان انسانی جانیں بچانے کی لازمی کوششوں کے بجائے الزام تراشی میں مصروف رہے ہیں۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ امریکی حکومت، جو انسداد وبا کے لیے اخراجات پر انتہائی محتاط بلکہ کنجوس نظر آتی ہے ، نے یوکرین کی امداد پر خطیر رقم خرچ کی ہے۔
امریکی قانون سازوں نے ایک جانب مارچ میں1.5 ٹریلین ڈالر مالیت کے سرکاری اخراجات کے منصوبے کو منظور کرنے کی خاطر ، 15.6 بلین ڈالر کے انسداد وبا اخراجات کو التوا کا شکار کیا مگر دوسری جانب یوکرین کے لیے 13.6 بلین ڈالر کی امداد منظور کی ہے ۔ اس رقم کا زیادہ تر حصہ مشرقی یورپ میں امریکی افواج اور متعلقہ اتحادیوں کے لیے ہتھیاروں کی فراہمی کے لیے استعمال ہوگا۔ 10 تاریخ کو امریکی ایوان نمائندگان نے یوکرین کے لیے 40 بلین ڈالر کا ایک اور امدادی منصوبہ منظور کیا، جس میں تقریباً 25 بلین ڈالر کی فوجی امداد بھی شامل ہے۔
چند امریکی سیاست دانوں کے نزدیک روس۔یوکرین تنازعہ کو ہوا دیتے ہوئے ملٹری۔انڈسٹریل کمپلیکس بہت زیادہ پیسہ کما سکتا ہے، بلکہ امریکہ اس سے فائدہ اٹھا کر اپنی بالادستی کو مزید مستحکم کر سکتا ہے . اس کے مقابلے میں امریکی عوام کی زندگی اور صحت کو ثانوی حیثیت حاصل ہے۔