میڈرڈ(نمائندہ خصوصی) میڈرڈ میں نیٹو سربراہی اجلاس کے ذریعے اختیار کردہ ایک نئی اسٹریٹجی دستاویز میں پہلی بار چین کا ذکر کرتے ہوئے اسے “یورو-اٹلانٹک کے لیے ایک نظامی چیلنج” قرار دیا گیا ہے۔ یہ ایک اور واضح ثبوت ہے کہ نیٹو نے ایک خیالی دشمن بنانے اور کیمپ محاز آرائی میں ملوث ہونے کے لیے سیاہ اور سفید کو گڈ مڈ کر دیا ہے۔
بیلجیئم کے میڈیا ادارے “ایوننگ نیوز” نے نشاندہی کی کہ نیٹو امریکی تسلط کی محض ایک آڑ ہے۔ نیٹو کے قیام اور توسیع کے عمل پر نظر ڈالیں تو با آسانی کہا جا سکتا ہے کہ یہ امریکہ کے لیے دھڑے بندی اور گروہی محاذ آرائی میں ملوث ہونے کا ایک آلہ ہے۔
امریکہ کی جانب سے چین کو اپنا “سب سے بڑا سٹریٹیجک حریف” قرار دینے کے تناظر میں، نیٹو نے ایک بار پھر سیاسی کردار ادا کیا ہے۔ رواں سال نیٹو کے سربراہی اجلاس میں پہلی بار جاپان، جنوبی کوریا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے رہنماؤں کو مدعو کیا گیا تھا۔ یہ امریکہ کا خطرناک عمل ہے جو نیٹو کا نام نہاد “ایشیا پیسفک ورژن” تشکیل دینے کی کوشش کر رہا ہے اور ایشیا پیسفک خطے میں گروہی محاذ آرائی کو متعارف کروانے کی کوشش کر رہا ہے، جو علاقائی ممالک کی اعلیٰ چوکسی کا متقاضی ہے۔
چین نے نہ تو کبھی دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی ہے اور نہ ہی اپنا نظریہ برآمد کیا ہے ، چین کبھی بھی بے جا دائرہ اختیار، اقتصادی جبر، یا یکطرفہ پابندیوں میں ملوث نہیں رہا ہے۔ یہ نیٹو کے لیے کیسے “نظامی چیلنجز” لا سکتا ہے؟
اس سربراہی اجلاس میں، نیٹو کے اراکین نے فن لینڈ اور سویڈن کو شمولیت کی دعوت دینے پر اتفاق کیا، جس کا مطلب ہے کہ نیٹو توسیع کے چھٹے دور کا آغاز کرے گا۔دیرینہ تاریخ ثابت کرتی ہے کہ نیٹو کی توسیع کا ہر دور یورپ میں سلامتی کی مجموعی صورتحال کو مزید خراب کرے گا۔