نیویارک(گلف آن لائن)پاکستان نے بین الاقوامی برادری پر زوردیا ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں خوراک کی پیداوار بڑھانے، سپلائی چین کو کھلا رکھنے، غریب کسانوں کی مدد اور فوڈ بینک بنانے کے لیے ہنگامی لائحہ عمل وضع کیا جائے،پاکستان نے عالمی برادری سیان مسائل سے نمٹنے کے لیے مالی وسائل کو متحرک کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔
یہاں اقوام متحدہ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات کے وزیر احسن اقبال نے کہا کہ ترقی پزیر ممالک کے گروپ جی۔ 77 کا صدر ہونے کے ناطے پاکستان اس بات پر زور دیتا ہے کہ غربت اور بھوک پر قابو پانے کے لیے پیچیدہ ڈھانچے کی اصلاح کرنے اورا تنظامی مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے اور پاکستان تجویز کرتا ہے کہ سپلائی چین کو لگنے والے دھچکے کے اثرات کو کم کرنے کے لیے ترقی پذیر ممالک کو مدد فراہم کرنے کے لیے اقوام متحدہ بین الاقوامی کوششوں کی قیادت کرے۔احسن اقبال جو اس وقت اقوام متحدہ میں اعلیٰ سطحی سیاسی فورم ( ایچ ایل پی ایف ) اجلاس میں شرکت کے لیے امر یکا کا دورہ کر رہے ہیں، نے کہا کہ یہ پائیدار ترقی کے اہداف پر عمل کرنے کی عالمی کوششوں کا ایک جزو ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس عالمی کوشش کو گزشتہ چند سالوں میں کووڈ۔19، موسمیاتی تبدیلی اور تنازعات کی وجہ سے شدید دھچکا لگا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان ترقی پذیر ممالک کے اجتماعی اقتصادی مفادات کے فروغ کے لیے اجتماعی کارروائی اور ردعمل کی تیاری کے لیے فعال کردار ادا کر رہا ہے۔ہم صحیح معنوں میں اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ جس طرح پائیدار ترقی کے اہداف کو ایک مقصد کے طور پر مقرر کیا گیا ہے کہ کسی بھی معاشرے کو کسی سے پیچھے نہیں چھوڑنا چاہئے، ہم سمجھتے ہیں کہ عالمی معاشرے میں دنیا میں کوئی بھی ملک پیچھے نہیں رہنا چاہئے۔احسن اقبال نے مزید کہا کہ آج دنیا بڑے معاشی بحران سے گزر رہی ہے اور ریکارڈ مہنگائی کا سامنا ہے۔ یوکرین کی جنگ کے بعد سپلائی چین میں خلل پڑ گیا ہے جس سے ترقی پذیر ممالک اور خاص طور پرکمزور اور پسماندہ اقوام کے لیے بہت زیادہ اقتصادی اور سیاسی چیلنجز پیدا ہو رہے ہیں ۔انہوں نے اس چیلنج اور بحران کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر ملک کے اندر اور عالمی سطح پر اجتماعی کارروائی پر زور دیا تاکہ معاشی ڈیفالٹ یا سیاسی بحران کو کم سے کم کیا جا سکے۔
اس کا تقاضا ہے کہ بین الاقوامی برادری کو کثیرالجہتی کے جذبے کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے عالمی فوڈ سکیورٹی چیلنج کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ یہ مسئلہ ترقی پذیر ممالک میں موسمیاتی تبدیلی سے پیداواری صلاحیت میں کمی ، پانی کی کمی، زمین کی تنزلی، زراعت کے بنیادی ڈھانچے کی کمی، نئی ٹیکنالوجی کے ناکافی اطلاق، غیر منصفانہ تجارتی طریقوں کی وجہ سے بتدریج بڑھ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو غذائی تحفظ، پانی کی سکیورٹی اور توانائی کے تحفظ میں چیلنجز کا سامنا ہے کیونکہ ماحولیاتی تبدیلی اور عالمی ترقی جیسے مسائل درپیش ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ زیادہ تر موسمیاتی تبدیلیوں اور زراعت میں ناکافی سرمایہ کاری کی وجہ سے پاکستان میں غذائی تحفظ کی صورتحال نازک ہو چکی ہے، ہمیں اس سال گندم درآمد کرنے کی ضرورت پڑے گی جب کہ عالمی سطح پر گندم کی سپلائی کا سلسلہ پہلے ہی منقطع ہے۔ بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر کے مسئلے کے حوالے سے وزیر نے مزید کہا کہ سب سے بڑی تشویش جموں و کشمیر میں غیر ملکی قبضے کے تحت لوگوں کی المناک حالتِ زار ہے، جو وحشیانہ جبر، ماورائے عدالت قتل، لاک ڈائون، من مانی حراستوں، اور غیر قانونی آبادیاتی نقل مکانی ،انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں،کرفیو میں توسیع جیسے مظالم شکار ہیں۔
احسن اقبال نے کہا کہ جب تک جموں و کشمیر کا تنازع اقوام متحدہ کے چارٹر اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کی بنیاد پر حل نہیں ہوتا اس وقت تک پاکستان اور ہندوستان کے درمیان پائیدار امن قائم نہیں ہوسکتا۔جموں و کشمیر کی شناخت کو ختم کرنے کے لیے 5 اگست 2019 کو بھارت کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات نے اس کے عوام کے خلاف جبر کی ایک بڑی مہم شروع کر دی ہے اور یہ ڈیموگرافی مسلم اکثریت کوہندو اکثریتی علاقے میں تبدیل کرنے کی کوشش ہے، جس نے تنازعہ کے منصفانہ حل کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی ظالمانہ پالیسیوں سے پیدا ہونے والی کشیدگی پر توجہ نہ دی گئی تو اس سے خطے میں ایک اور تنازعہ پیدا ہو سکتا ہے جس کے ممکنہ تباہ کن نتائج برآمد ہوں گے۔ احسن اقبال نے کہا کہ 40 سال میں پہلی بار افغانستان کو مستحکم کرنے کا موقع ملا کیونکہ پورا ملک ایک حکومت کے کنٹرول میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان کا ہمسایہ ملک ہے اور اگر افغانستان میں عدم استحکام ہوا تو پاکستان اس کی قیمت ادا کرنے والا پہلا ملک ہو گا۔پاکستان کو یوکرین میں جنگ کے جاری رہنے پر گہری تشویش ہے پاکستان نے ہمیشہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں کے مستقل اور عالمگیر اطلاق پر زور دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان یوکرین کے تنازع کے خاتمے کے لیے جلد مذاکرات پر زور دیتا ہے ۔ احسن اقبال نے مزید کہا کہ اگرچہ پاکستان کاربن کا سب سے کم اخراج کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے، لیکن یہ موسمیاتی تبدیلی اور گلوبل وارمنگ سے سب سے زیادہ خطرات سے دوچار ممالک میں سے ایک ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم بنیادی طور پر فطرت پر مبنی حل کے ذریعے جیسے کہ جنگلات کی کٹائی کی روک تھام اور صاف توانائی کی موافقت سے کاربن کے اخراج کو کم کرنے میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ حال ہی میں حکومت نے ملک میں شمسی توانائی اور قابل تجدید توانائی کے ساتھ ایک بڑا اقدام شروع کیا ہے۔انہوں نے شہروں، دریا ئوں اور جھیلوں میں آلودگی کے خاتمے کے لیے پاکستان کے موسمیاتی موافقت کے بڑے منصوبوں میں بین الاقوامی سرمایہ کاری پر زور دیا۔پاکستان کا ماحولیاتی پروگرام فراخدلانہ بین الاقوامی حمایت کا مستحق ہے۔اسلاموفوبیا کے معاملے پر بات کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ پاکستان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے اس چیلنج کو تسلیم کرنے کا خیر مقدم کیا ہے جس کے تحت ہر سال 15 مارچ کو اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے لیے عالمی دن کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ہمیں اسلامو فوبیا اور عدم برداشت اور نفرت کی دیگر اقسام سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی ایکشن پلان کی ضرورت ہے۔