اسلام آباد (گلف آن لائن)پاکستان مسلم لیگ (ن)کی نائب صدر مریم نواز شریف نے کہا ہے کہ پارٹی سربراہ دیکھ کر آئین کی تشریح اورعدالتوں کے فیصلے بدل جاتے ہیں،آئین شکنی کیس میں صدر مملکت اور قاسم سوری ملوث ہیں ، انہیں عدالت میں طلب نہیں کیا جاتا ،وزیراعظم شہباز شریف اکثر عدالتوں میں دیکھے جاتے ہیں،ادارے کی توہین ادارے کے اندر سے ہوتی ہے ،جس طرح میچ فکسنگ ایک جرم ہے اسی طرح بینچ فکسنگ بھی ایک جرم ہے اس پربھی از خود نوٹس ہونا چاہیے،انصاف کا ترازو کو ٹھیک کرلیں، جب انصاف کا ترازو ٹھیک ہوگا تو پاکستان بھی خود بخود ٹھیک ہوجائے گا۔
پیر کو یہاں اتحادی جماعتوں کے قائدین مولانا فضل الرحمن ، بلاول بھٹو زر داری ،ہاشم نوتزئی، ایمل خان، طارق بشیر چیمہ، خالد مگسی ،اسلم بھوتانی، اسامہ قادری، خالد مقبول صدیقی (زوم) شاہ زین بگٹی، محسن داوڑو دیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مریم نواز نے کہاکہ چرچل نے جنگ عظیم دوم کے دوران کہا تھا اگر ہماری عدالتیں انصاف فراہم کر رہی ہیں تو ہمیں کوئی شکست نہیں دے سکتا۔مریم نواز نے کہا کہ خلفائے راشدین کا قوم ہے کہ کفر کی بنیاد پر ریاست کا نظام چل سکتا ہے لیکن ظلم کی بنیاد پر کوئی نظام نہیں چل سکتا۔مریم نواز نے کہا کہ پریس کانفرنس کیلئے آرہی تھی تو بہت سے لوگوں کے پیغامات آئے کہ آپ کی اپیل زیر التوا ہے آپ پریس کانفرنس نہ کریں۔انہوں نے کہا کہ کچھ حقائق قوم کے سامنے رکھنا چاہتی ہوں، 75 سال تاریخ میں نہیں جانا چاہتی، حالیہ چند برسوں کے کچھ واقعات کا حوالہ دینا چاہتی ہوں جن کی تفصیلات دیکھ کر رونگٹے کھڑے کردینی والی ایک داستان سامنے آتی ہے۔انہوںنے کہاکہ کسی سے بھی غلط فیصلہ ہوسکتا ہے لیکن تسلسل کے ساتھ غلط فیصلے ہونا، فیصلے بانچھ نہیں ہوتے، ان کے دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں، کچھ فیصلوں کے اثرات وقت گزرنے کے ساتھ کم نہیں ہوتے بلکہ آنے والی دہائیوں میں ان کے اثرات مزید گہرے ہوتے جاتے ہیں۔
مریم نواز نے کہا کہ کسی بھی ادارے کی توہین کبھی بھی اس کے باہر سے نہیں ہوتی، ادارے کی توہین ادارے کے اندر سے ہوتی ہے، عدلیہ کی توہین کوئی شخص نہیں، اس کے متنازع فیصلوں سے ہوتی ہے۔انہوںنے کہاکہ میں یہاں عدلیہ کی تعریف و توصیف میں لمبا چوڑا مضمون لکھ سکتی ہوں تاہم صرف ایک غلط فیصلہ اس پورے مقدمے کو اڑا کر رکھ دے گا اور اسی طرح اگر فیصلہ عدل و انصاف پر مبنی ہو تو اس پر کتنی بھی تنقید کی جائے، وہ تنقید کوئی معنی نہیں رکھتی۔مریم نواز نے کہا کہ گزشتہ دنوں جب حمزہ شہباز وزیر اعلیٰ پنجاب منتخب ہوئے تو پی ٹی آئی اس انتخاب کے خلاف سپریم کورٹ گئی، سپریم کورٹ لاہور رجسٹری کی دیواریں پھلادی گئیں، قوم نے دیکھا کہ چھٹی کے دن رات کے اوقات میں عدالت عظمیٰ کی رجسٹری کھولی گئی، رجسٹرار گھر سے بھاگا بھاگا آیا اور درخواست طلب کی تو پی ٹی آئی کی جانب سے کہا گیا کہ پٹیشن ابھی تیار نہیں ہے جس پر رجسٹرار نے کہا کہ ہم بیٹھیں ہیں آپ پٹیشن تیار کریں۔انہوںنے کہاکہ کیا اس طرح کبھی اس سے قبل کسی مقدمے میں ہوا؟ انصاف کے حصول کیلئے لوگوں کی پٹیشنز جاتی ہیں تو انتظار میں ہی ہفتے اور مہینے گزر جاتے ہیں اور وہ درخواستیں سماعت کے لیے مقرر ہی نہیں کی جاتیں۔انہوں نے کہا کہ یہاں جب کوئی پٹیشن آتی ہے تو لوگوں کو پہلے سے پتا ہوتا ہے کہ کونسا بینچ بنے گا اور جب بینچ بنتا ہے تو لوگوں کو پہلے سے پتا ہوتا ہے کہ فیصلہ کیا ہوگا، یہ ہے اس وقت ہمارے ملک میں انصاف کی حقیقت۔
مریم نواز نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے الیکشن میں 6 ووٹ مسترد ہوئے تھے، جب سپریم کورٹ گئے تو کہا گیا کہ اسپیکر کی رولنگ کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا، دوسری جانب پنجاب اسمبلی کے اسپیکر نے رولنگ دی کہ مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کی مرضی کے خلاف جن اراکین نے ووٹ دئیے ہیں وہ شمار نہیں کیے جائیں گے تو سپریم کورٹ نے بلاکر ان کو کٹہرے میں کھڑا کیا جب کہ وہ بھی ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ تھی۔انہوںنے کہاکہ اسی طرح کے فیصلوں کی ایک وہ بھی ہے کہ جب عدالت نے کہا کہ آئین کو توڑا گیا ہے تاہم پھر بھی قاسم سوری کو نہیں بلایا گیا، قاسم سوری کا اوپن اینڈ شٹ کیس ہے، ان کے جعلی ووٹ ثابت ہوچکے ہیں لیکن ڈھائی سال سے ان کو اسٹے آرڈر ملا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئین شکنی کیس میں صدر مملکت اور قاسم سوری ملوث ہیں تاہم انہیں عدالت میں طلب نہیں کیا جاتا جب کہ وزیراعظم شہباز شریف اکثر عدالتوں میں دیکھے جاتے ہیں۔مریم نواز نے کہا کہ پارٹی لائن کے خلاف ووٹ دینے پر 25 اراکین کو ڈی سیٹ کیا گیا اور کہا گیا کہ ان کے ووٹ بھی شمار نہیں کیے جائیں گے، سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر 95 فیصد قانونی ماہرین نے کہا کہ یہ فیصلہ آئین پاکستان کو ری رائٹ کرنے کے مترارف ہے، عدالت نے اپنے اس فیصلے سے مسلم لیگ (ن) کے 25 ارکان عمران خان کی جھولی میں پھینک دے اور مسلم لیگ (ق) کے 10 ارکان بھی پی ٹی آئی کی جھولی میں ڈال دیا۔
مریم نواز نے کہا کہ پی ٹی آئی ارکان کو بڑھانا اور مسلم لیگ (ن) کے ارکان کو کم کرنا یہ کہاں کا انصاف ہے، پارٹی کو دیکھ کر، پارٹی کے سربراہ کو دیکھ کر آئین کی تشریح بدل جاتی ہے، پارٹی ہیڈ کی تشریح بدل جاتی ہے، چند روز قبل کیے گئے اپنے فیصلے ہی بدل جاتے ہیں۔مریم نواز نے کہاکہ پارٹی ہیڈ نواز شریف ہو تو پاناما پیپرز فیصلے میں ان سے پارٹی کی صدارت یہ کہہ کر لے لی گئی کہ پارٹی سربراہ کا اس پر اثر و رسوخ ہوتا ہے، یہ کہہ کر ان سے پارٹی کی صدارت لے لی گئی، جب چوہدری شجاعت بطور صدر کوئی حکم دیتے ہیں تو اس پر سوالات اٹھائے جاتے ہیں جبکہ عمران خان جب کوئی ہدایات دیتے ہیں تو وہ حکم معتبر مانا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چوہدری شجاعت جب حکم دیتے ہیں تو پارلیمانی پارٹی اہم ہوجاتی ہے اور جب عمران خان حکم دیتے ہیں تو پارٹی سربراہ کی تعریف بھی بدل جاتی ہے، آئین کی تشریح اور آئین کا حلیہ بھی بدل جاتا ہے۔مریم نواز نے کہا کہ انصاف کا ترازو کو ٹھیک کرلیں، جب انصاف کا ترازو ٹھیک ہوگا تو پاکستان بھی خود بخود ٹھیک ہوجائے گا۔مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر نے کہا کہ ٹرسٹی چیف منسٹرز، بلیک لا ڈکشنری جیسے منفرد خیالات کہاں سے آتے ہیں، کہاں کبھی سنا کہ کوئی ٹرسٹی چیف منسٹر ہو، جب سے حمزہ شہباز وزیر اعلیٰ پنجاب بنے ہیں اس وقت سے انہیں کام نہیں کرنے دیا گیا، انہیں کابینہ نہیں بنانے دی گئی، کبھی وہ پارلیمنٹ جاتے ہیں اور کبھی عدالتوں کے چکر لگاتے رہتے ہیں۔
مریم نواز نے کہا کہ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ معیشت کی حالت ٹھیک نہیں، جب 4 سال کے دوران عمران خان ملکی معیشت کو تباہ کر رہا تھا کیا اس دوران کسی نے کوئی بیان معشیت کی تباہی سے متعلق سنا، اگر معیشت کا موازنہ کرنا ہے تو پھر اس وقت سے موازنہ ہوگا جب آپ نے نواز شریف کو نکالا تھا اورعمران خان حکومت چھوڑ کر گیا اس وقت معیشت کی کیا حالت تھی، جب عمران خان گیا تو اس وقت ملکی معیشت وینٹی لیٹر پر تھی۔
انہوںنے کہاکہ جب عمران خان ملک کی معیشت کو تباہ کر رہا تھا تو اس وقت کسی کو اس کا خیال نہیں آیا، اس کو وقت بھی کھلی آزادی تھی اور آج بھی اس کو کھلی چھوٹ ہے۔انہوں نے کہا کہ عمران خان کی کابینہ نے برطانیہ سے ملنے والے 50 ارب روپے خاموشی سے ملک ریاض کو دے دئیے، وہ پاکستانی قوم کا پیسا تھا، کہاں ہے اس کی منی ٹریل، اس پر کسی نے سوموٹو نوٹس لیا۔
مریم نواز نے کہا کہ معیشت کی تباہی کے سارے تانے بانے بھی عدالت کے فیصلوں سے ملتے ہیں کہ 2017 میں معیشت کے تمام اشارے مثبت تھے اس کو آپ نے غیر مستحکم کیا، جب سے آپ نے نواز شریف کو اقامہ جیسے مذاق پر نکالا، اس وقت سے یہ ملک عدم استحکام کا شکار ہے، ملک ایسا ہلا کہ اب تک سنبھلنے میں نہیں آرہا۔انہوں نے کہا کہ وٹس ایپ کالز پر جے آئی ٹیز بنائی گئیں، نگران جج لگایا گیا، اس وقت جو مانیٹرنگ جج لگایا گیا تھا وہ جج آج بھی ہم پر نگران جج لگا ہوا ہے، وہ جج صرف ایک مقدمے کے لیے لگایا گیا تھا تاہم لگتا ہے کہ وہ ہمارے اوپر تاحیات نگران جج لگ گیا ہے، ہمارے خلاف بنائے گئے ہر مقدمے میں وہ جج شامل ہوتا ہے، سپریم کورٹ میں اور دیگر اچھی شہرت والے ججز بھی ہیں، ان کو کیوں مقدمات میں شامل نہیں کیا جاتا، ایک یا 2 ججز جو ہمیشہ سے اینٹی مسلم لیگ (ن) رہے ہیں ان کو ہی کیوں ہمارے خلاف کیسز کے بینچ میں بٹھایا جاتا ہے۔
مریم نواز نے کہا کہ جس طرح میچ فکسنگ ایک جرم ہے اسی طرح بینچ فکسنگ بھی ایک جرم ہے اس پربھی از خود نوٹس ہونا چاہیے۔مریم نواز نے کہا کہ ہمارے خلاف کیسے کیسے القاقات ڈھونڈ ڈھونڈ کر لگائے گئے، دنیا جہاں میں تحقیقات کرائی گئیں تاہم ہمارے خلاف کچھ نہیں ملا، جہاں جرم ہوتا ہے ہمیشہ اس کا ثبوت ہوتا ہے، کچھ نہیں ملا تو آخر میں اقامہ پر چلتا کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ پاناما کیس سننے والے سپریم کورٹ کے بینچ کے ایک رکن جسٹس آصف سعید کھوسہ نے عمران خان کو کہا کہ سڑکوں پر کیا مارے مارے پھر رہے ہو، میرے پاس پٹیشن لے کر آؤ، میں سنتا ہوِں، نواز کو نکالنا چاہتے ہوں، آؤ، میں تمہارے مدد کرتا ہوں اور پھر دنیا نے دیکھا کہ اسی عدالت نے نواز کو نکالا۔نہوںنے کہاکہ جب پاناما کیس چل رہا تھا کہ تو اشتہار ملزم عمران خان عدالت میں ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر کیس کی کارروائی دیکھتا تھا،خوش ہوتا تھا کیونکہ اس کو پتا تھا کہ فیصلہ کیا آئیگا، کسی عدالت نے اس سے نہیں کہا کہ تم اشتہاری ہو، تم عدالت میں کیا کر رہے ہو۔
مریم نواز نے کہا عمران خان اپنے اس طرز عمل سے ہمارا نہیں بلکہ عدالت کا مزاق اڑا رہا تھا، وہ انصاف اور نطام عدل کا مذاق اڑا رہا تھا، وہ کیس کی سماعت کرنے والے 5 رکنی بینچ کے اسکواڈ کا مذاق آڑا رہا تھا کہ دیکھوں میں اشتہاری ہوں لیکن کسی میں مجھے پکڑنے کی طاقت نہیں ہے۔انہوںنے کہاکہ ہمارے رہنماؤں کے خلاف توہین عدالت کے مقدمات بنائے گئے، انہوں نے کوئی توہین عدالت نہیں تھی لیکن وہ آج تک نا اہل ہیں، توہین عدالت وہ ہوتی ہے جو یوکے میں آئین شکنی سے متعلق فیصلہ سامنے آنے کے بعد کی گئی، ان میں سے کسی کے خلاف توہین عدالت کا کیس نہیں بنایا گیا بلکہ ان کے ہی حق میں فیصلے آرہے ہیں، اگر اسی طرح سے فیصلے ہونے ہیں کہ جو سب سے زیادہ بد معاشی کرے گا، گالی دے گا تو فیصلہ اسی کے حق میں آئیگا، اگر تنقید سے اتنا ڈرتے ہیں تو سوچیں کہ یہ ملک کدھر جا رہا ہے۔
وزیر خارجہ اور پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اس ملک کی جمہوری جماعتوں کا اس وقت ایک ہی مطالبہ کہ ہمیں فل کورٹ بینچ چاہیے، یہ نہیں ہو سکتا کہ 3 شخص اس ملک کی قسمت کا فیصلہ کریں۔بلاول بھٹو نے کہا کہ اس ملک کی جمہوری جماعتوں کا اس وقت ایک ہی مطالبہ کہ ہمیں فل کورٹ بینچ چاہیے، یہ نہیں ہو سکتا کہ 3 شخص اس ملک کی قسمت کا فیصلہ کریں۔بلاول بھٹو نے کہا کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ صرف 3 شخص یہ فیصلہ کریں گے کہ یہ ملک جمہوری نظام کے تحت چلے گا، الیکٹڈ نظام کے مطابق چلے گا یا سلیکٹڈ نظام کے مطابق چلے گا۔وزیر خارجہ نے کہا کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ 3 شخص 1973 کے آئین پاکستان کو یک جنبش قلم تبدیل کردیں اور ہمیں اس کے 30 سال جدجہد کرنی پڑے، قربانیوں دینی پڑیں، قوم کو لاشیں اٹھانا پڑھتی ہیں، ہمارے کارکنوں کو تخت دار پر چڑھنا پڑھتا ہے۔انہوںنے کہاکہ آ ئین پاکستان میں کیا لکھا ہے اس بات کا فیصلہ یہ 3 افراد کریں گے یا ملک کے عوام کی نمائندہ سیاسی جماعتیں کریں گی، ہم ملک کے چاروں صوبوں کے عوام کی نمائندگی کرتے ہوئے ایک پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم اس ملک کو جمہوری طریقے سے چلتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمیں نظر آرہا ہے کہ کچھ قوتوں کو، کچھ لوگوں کو یہ بات ہضم نہیں ہو رہی کہ پاکستان جمہوریت کی سمت کی جانب بڑھتا جا رہا ہے، ہضم نہیں ہو رہا کہ ون یونٹ نظام بنانے کی 70 سالہ کوشش ناکام ہو رہی ہے، یہ بات برداشت نہیں ہو رہی کہ پاکستان کے عوام خود اپنے فیصلے کر رہے ہیںِ۔بلاول بھٹو نے کہا کہ عمران خان نے 4 کے دوران اتنا قرض لیا جتنا اس سے قبل پورے 70 سال میں لیا گیا تھا، ملکی معیشت کو تباہ کردیا، ہم نے جو آئینی حقوق صوبوں کو دیے تھے، ان کو سلب کرنے کی کوشش کی، وہ آمر بن کر تمام اداروں کو اپنا ٹائیگر فورس بنا کر ملک پر راج کرنے کی کوشش کر رہا تھا، اس کے خلاف تمام سیاسی جماعتوں نے جمہوری جد وجہد کی۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم نے ایک دن کے لیے بھی تشدد کا راستہ اختیار نہیں کیا، مریم نواز، فریال تالپور کو جیل میں ڈالا گیا، صدر زرداری کو جیل میں ادویات سے محروم رکھا گیا تو اس وقت یہ ہی عدالتیں ہمارے کیسز نہیں سن رہی تھیں، پھر جب ہماری جد وجہد کے باعث ادارے اپنے آئینی کردار پر مجبور ہوئے تو صرف 3 میں کچھ لوگ، کچھ قوتیں، کچھ سیاسی جماتوں اور سازشی افراد عمران خان کو سامنے رکھ کر ملک میں ایک مہم چلائی جا رہی ہے۔انہوںنے کہاکہ یہ چلائی جانے والی مہم اس ملک کی معاشی ترقی اور جمہوی سفر کے خلاف سازش ہے، ہم نے ماضی میں کوئی سازش کامیاب نہیں ہونے دی اور ہم آج بھی کسی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ اس کیس کی سماعت فل کو رٹ کرے ،عوام اور عوامی نمائندوں کا تحفظ یقینی بنایا جائے،گزشتہ چارسالوں میں ملک کا بیڑہ غرق ہوا ۔ انہوںنے کہاکہ سب کو خود احتسابی کی ضرورت ہے ،ہم چاہتے ہیں کہ اداروں کا ساتھ دیں ،مریم نواز کی باتوں کی تائید کرتاہوں ۔