اسلام آ باد (نمائندہ خصوصی) پاکستان میں ریکارڈ توڑ گرمی کے بعد تباہ کن سیلاب سے اب تک تقریباً 800 افراد ہلاک ہو چکے ہیں-جمعرات کے روز چینی میڈ یا کے مطا بق رواں سال دنیا بھر میں انتہائی شدید موسم کی ایک لہر دیکھنے میں آئی ہے، جس سے لوگوں کی جان و مال نیز خوراک کے تحفظ کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ یورپ 5 صدیوں میں آنے والی بدترین خشک سالی کا سامنا کر رہا ہے، گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ ماہرین نے نشاندہی کی کہ عالمی موسمیاتی تبدیلی شدید موسم کی ایک بڑی وجہ ہو سکتی ہے اور ہمیں عالمی موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے فوری طور پر کام کرنا چاہیئے۔
موسمیاتی ماہرین کا خیال ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کو کم کرنا سب سے اہم اقدام ہے۔ اس سلسلے میں چین نے پختہ عزم کے ساتھ ذمہ دارانہ رویہ اپنایا اور انتہائی مضبوط اقدامات اختیار کیے ۔ چینی صدر شی جن پھنگ نے ستمبر 2020 میں اعلان کیا تھا کہ چین 2030 تک “کاربن پیک”کے ہدف تک پہنچنے کی کوشش کرے گا اور 2060 تک کاربن نیوٹرل کی تکمیل کی کوشش کرے گا۔ مضبوط قومی حکمت عملیوں اور لائحہ عمل سے، کاربن اخراج میں کمی کے اقدامات کے سلسلے میں مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔ زیادہ تر شہروں کی سبز اور کم کاربن والی ترقی کا معیار حقیقی معنوں میں بہتر ہو گیا ہے۔
نئی توانائی، سمارٹ الیکٹرک گاڑیاں، 5G، صنعتی روبوٹس اور انٹرنیٹ کی معیشت جیسی صنعتوں میں چین نے مثبت نتائج حاصل کیے ہیں۔ نئی توانائی سے چلنے والی گاڑیوں کی مثال لی جائے،تو جولائی میں جاری ہونے والے”آٹو موبائل انڈسٹری کے بلیو پیپر (2022)” کے مطابق 2021 میں، چین کی نیو انرجی کار مارکیٹ میں تیزی سے ترقی ہوئی ہے، پورے سال میں 3.5 ملین گاڑیاں بکیں جو کہ پچھلے سال کے مقابلے میں 157.8 فیصد سے زیادہ ہے۔
معاون پالیسیز کے نفاذ اور متعلقہ صنعتوں کی اپ گریڈنگ کے علاوہ عوامی حمایت اور تعاون بھی بہت اہم ہے۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ پاکستان کے کراچی میں ہزاروں گھرانے چین کی طرف سے عطیہ کردہ شمسی توانائی کے آلات استعمال کر رہے ہیں۔ اسی شمسی توانائی کے آلات کو شمالی چین میں چرواہوں کے خیموں کے باہر یا جنوب کے چھوٹے شہروں میں عام لوگوں کی چھتوں پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔یہی نہیں، مزید ماحول دوست لباس، دوبارہ استعمال کیے جانے والے شاپنگ بیگز، سبز سفری طریقے،وغیرہ وغیرہ “تھوڑی سی روشنی اگر جمع ہو ،تو پوری دنیا کو مزید روشن بنایا جاسکے گا”۔یہ امر خوش آئند ہے کہ عام آدمی بھی پائیدار ترقی، عالمی موسمیاتی حالات کو بہتر بنانے، اور اپنے محفوظ تر مستقبل کے لیے اپنی خدمات سرانجام دے رہا ہے۔