اسلام آباد (نمائندہ خصوصی)سعودی عرب کے ولی عہد امیر محمد بن سلمان کا دورہ پاکستان پاک سعودی عرب تعلقات کی مضبوطی ، استحکام اور تعلقات میں بہتری کی دلیل ہے،سعودی عرب کے ولی عہد دنیا کیلئے بھی ایک مضبوط فکر اور سوچ رکھنے والے لیڈر کے طور پر ابھرے ہیں، مصر میں موسمی حالات میں تبدیلی پر کانفرنس اور سعودی عرب کا گرین مشرق وسطیٰ کا ویژن پاکستان اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کے درمیان بہت سارے امور میں ترقی کے راستے نکالے گا،
مصر میں وزیر اعظم نے موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے پاکستان کے موقف اور سیلاب کی صورتحال اورنقصانات پر ملک و قوم کی صحیح ترجمانی کی ہے،عالمی سطح پر بین المذاہب و بین المسالک مکالمہ اور موسمی تبدیلیوں پر مذہبی قائدین مسلسل عوام الناس کی آگاہی کیلئے کام کر رہے ہیں،دارالافتاء مصر اور بحرین اسلامک کونسل کی طرف سے بلائی جانے والی کانفرنسز سے دنیا کو رہنمائی ملی ہے، غربت ، جہالت کا خاتمہ اور امن کیلئے کوششوں کے حوالہ سے ان کانفرنسوں میں ایک موثر آواز بلند کی گئی ہے، روس ،یوکرائن جنگ کو بند کرنے کے تمام مذاہب کی قیادت نے اپیل کی ہے،جنگ سے دنیا مسائل کا شکار ہو رہی ہے ، جنگوں کو بند کر کے امن کو ترویج دینی ہو گی۔ یہ بات چیئرمین پاکستان علماء کونسل و نمائندہ خصوصی وزیر اعظم پاکستان برائے بین المذاہب ہم آہنگی و مشرق وسطیٰ حافظ محمد طاہر محمود اشرفی نے بحرین کے تین روزہ دورہ سے واپسی پر ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان علماء کونسل کے تحت 16 نومبر کو اسلام آباد میں پانچویں عالمی پیغام اسلام کانفرنس ہو گی جس کا عنوان پاک سعودی عرب اور عالم اسلام کے تعلقات ہے،کانفرنس میں عالم اسلام کے اہم ترین قائدین خطاب کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کے ولی عہد امیر محمد بن سلمان کی سرپرستی اور مصر کی حکومت کے تعاون سے ماحولیات پر عالمی کانفرنس سے عالمی سطح پر بالعموم اور عالم اسلام میں بالخصوص ایک موثر اور مثبت سمت کا تعین ہوا ہے۔
پاکستان اس سے قبل گرین مشرق وسطیٰ اور گرین سعودی عرب کے سعودی ولی عہد کے ویڑن کا خیر مقدم کر چکا ہے اور پاکستان کا مکمل تعاون سعودی عرب کے ساتھ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے اندرونی حالات مستحکم ہوں تو ایک سے دو سال میں پاکستان میں 25 سے تیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری آ سکتی ہے، سعودی عرب کی طرف سے بہت تیزی اور محبت کے ساتھ ایک بار پھر مالی تعاون کیلئے اقدامات کیے جا رہے ہیں، قطر، متحدہ عرب امارات ، کویت ، بحرین سب ہی ہمارے ساتھ تعاون کیلئے تیار ہیںاور وزیر اعظم میاں شہباز شریف اس حوالے سے تمام محکموں اور وزارتوں کو ہر ممکن سہولتیں پیدا کرنے کا حکم دے چکے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں ملک کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے حافظ محمد طاہر محمود اشرفی نے کہا کہ احتجاج ، سڑکیں بند کرنا ، الزام تراشی مسائل کا حل نہیں ہے، عمران خان پر حملہ قابل مذمت ہے ، اصل حقائق سامنے آنے چاہئیں۔
وزیر اعظم سپریم کورٹ سے اپیل کر چکے ہیں ، عمران خان پر حملہ میں کسی ادارے ، وزیر اعظم یا وزیر داخلہ کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ ملک کے حساس ترین ادارے کو بدنام کرنے ، قوم اور فوج میں تقسیم پیدا کرنے کیلئے ایک سازشی بیانیہ بنایا گیا ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ پاکستانی قوم کیلئے اس کی ریڈ لائن اس کا دین ، وطن اور فوج ہے۔ پاکستان کی سیاسی و مذہبی قیادت کو حالات پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہے۔
دریں اثنا پاکستان علمائکونسل کے قائدین نے تحریک انصاف کی قیادت سے مختلف مقامات پر بند کیے گئے راستوں کو کھولنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ تحریک انصاف کو پْر امن احتجاج کرنے کا حق حاصل ہے لیکن عوام الناس کیلئے پیدا ہونے والی مشکلات کا احساس کرنا بھی تحریک انصاف کی قیادت اور کارکنان کی ذمہ داری ہے۔ پاکستان علماء کونسل کے مرکزی چیئرمین حافظ محمد طاہر محمود اشرفی ، علامہ عبد الحق مجاہد، مولانا اسعد زکریا قاسمی، مولانا نعمان حاشر ، مولانا محمد شفیع قاسمی ، مولانا اسد اللہ فاروق، علامہ طاہر الحسن ، مولانا زبیر عابد، مولانا محمد اشفاق پتافی ، مولانا طاہر عقیل اعوان ، مولانا محمد اسلم صدیقی ، مولانا عزیز اکبر قاسمی اور دیگر نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں تحریک انصاف کی قیادت سے اپیل کی ہے کہ ملک کے مختلف حصوں بالخصوص لاہور ، اسلام آباد میں بند کیے گئے راستوں کو فوری طور پر کھولا جائے اور تحریک انصاف پْرامن احتجاج کو عوام الناس کیلئے مشکلات کا سبب نہ بننے دے۔
رہنمائوں نے کہا کہ اسلام ہمیں لوگوں کیلئے آسانیاں پیدا کرنے کا حکم دیتا ہے اور تحریک انصاف یا کسی بھی جماعت کو لوگوں کیلئے راستے بند کرنے کا عمل ہر گز ہرگز نہیں کرنا چاہیے،پاکستان علمائ کونسل تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ مسائل کو باہمی مذاکرات اور باہمی افہام و تفہیم سے حل کرنے کی کوشش کریں اور ملک کے اندر افراتفری ، فساد اور تشدد کی طرف جانے والے تمام عوامل کو فوری طور پر ختم کیا جائے۔