بیجنگ (نمائندہ خصوصی) چین میں وبا کی روک تھام میں نرمی کی گئی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ گزشتہ عرصے میں چین کے لاک ڈاؤن کو اقتصادی ترقی پر فوقیت کیوں دی گئی؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ لوگوں کی صحت کا تحفظ کرنا بھی پیداواری صلاحیت کو برقرار رکھنا ہے۔جمعرات کے روز چینی میڈ یا کے مطا بق
بہت سے لوگوں نے ذکر کیا ہے کہ گزشتہ تین سالوں میں چین میں یکے بعد دیگرے کووڈ-۱۹ کے کیسز آ رہے ہیں، لیکن کیا حقیقت میں ایسا ہے؟
عوامی ڈیٹا کے تجزیے سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ دس جنوری 2020 سے اب تک 250 دن ایسے گزرے ہیں جن میں چین میں نئے مقامی تصدیق شدہ کیسز کی تعداد صفر تھی۔عالمی اوسط میں ہر سیکنڈ میں 7 افراد کووڈ-۱۹ سے متاثر ہوتے ہیں، جبکہ چین میں ان 250 دنوں کے دوران کوئی نیا کیس سامنے نہیں آیا۔ اس کے پیش نظر، “لاک ڈاؤن” پچھلے تین سالوں میں کلیدی لفظ نہیں رہا ہے۔
عوام، پیداور میں سب سے زیادہ فعال عنصر ہیں۔ لاک ڈاؤن سے عوام کی صحت کو یقینی بنایا گیا، اور اسی سے پیداواری صلاحیت کو بھی بچایا گیا ہے۔
تین سال ایک نیا نقطہ آغاز ہے۔
چین نے کسی حد تک معاشی قیمت ادا کی ہے، کھویا ہوا وقت کیسے واپس حاصل کیا جائے اور مستقبل میں معیشت کیسے مضبوط کی جائے؟ صرف ایک لفظ ہے “ہمت”۔ لفظ “ہمت” کے پیچھے تبدیلی کی ہمت اور ذمہ داری ہے۔
بہت سی صنعتوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے کہا کہ اگر یہ وبا نہ ہوتی تو انہیں ڈیجیٹل تبدیلی کی ضرورت کا احساس نہ ہوتا۔
ڈیجیٹلائزیشن عالمی ترقی کا رجحان بن چکی ہے۔ وبا کے تین سال کے دوران، چین نے، جو بحرانوں میں مواقع سے فائدہ اٹھانے میں اچھا ہے، ڈیجیٹلائزیشن کے حوالے سے اتفاق رائے حاصل کیا ہے ۔ 2021 میں، ڈیجیٹل معیشت چین کی اقتصادی ترقی کے اہم انجنوں میں سے ایک بن گئی ہے، جس کا جی ڈی پی میں 39.8 فیصد حصہ ہے۔
بحران سے نمٹنے میں تکنیکی تبدیلی کو فروغ دیا گیا ہے، اور یہ تبدیلی ناقابل تصور طاقت کے ساتھ چین کی اقتصادی ترقی کی گنجائش کو بڑھا رہی ہے۔ گزشتہ تین سالوں میں، چین نے ڈیجیٹل دور میں اپنی منتقلی کو تیز کیا ہے اور اعلیٰ معیار کی ترقی کی طرف گامزن ہے۔