بیروت (گلف آن لائن)لبنان کے دارالحکومت بیروت کی بندرگاہ پر اگست 2020 میں ہونے والے مہلک دھماکے کی تحقیقات کرنے والے جج نے آٹھ اعلی اور درمیانے درجے کے سرکاری عہدے داروں کے خلاف فردِجرم عایدکر دی ۔لبنانی ذرائع ابلاغ کے مطابق دھماکے کی تحقیقات کرنے والے جج نے ایک سال سے زیادہ عرصے تک تحقیقات منجمد ہونے کے بعد اپنا کام دوبارہ شروع کردیا ہے۔بیروت میں ہونے والے دھماکے کی تحقیقات حکمران دھڑوں کی جانب سے سیاسی مزاحمت اور مرکزی تفتیش کار جج طارق بیطارکے خلاف قانونی چیلنجز کی وجہ سے ایک سال سے زیادہ عرصے تک تعطل کا شکاررہی ہیں۔عدالتی ذرائع نے خبر رساں ادارے کو بتایا کہ جج بیطارنے ایک قانونی مطالعہ کی بنیاد پراپنا کام دوبارہ شروع کیا ہے جس میں اس بنیاد کو چیلنج کیا گیا تھا جس کی وجہ سے اسے منجمد کیا گیا تھا۔
یہ فوری طورپرواضح نہیں کہ یہ مطالعاتی رپورٹ کس نے تیارکی تھی۔یادرہے کہ ریکارڈ پر سب سے طاقتورغیرجوہری دھماکوں میں سے بیروت کی بندرگاہ پر یہ دھماکا سیکڑوں ٹن امونیم نائٹریٹ کی وجہ سے ہوا تھا جسے 2013 میں بندرگاہ پر اتارا گیا تھا۔جج طارق نے پارلیمنٹ کے اسپیکر نبیہ بری کی امل تحریک کے ارکان، دھماکے کے وقت کے وزیر اعظم حسن دیاب اور اعلی سکیورٹی اہلکار میجر جنرل عباس ابراہیم سمیت سینیر سیاست دانوں سے پوچھ تاچھ کرنے کی کوشش کی ہے۔دو سابق وزرا علی حسن خلیل اور غازی زعیتر سمیت ان سبھی نے غلط کام کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ طارق بیطار کے پاس ان سے پوچھ تاچھ کا اختیارنہیں ہے۔طاقتور شیعہ گروپ حزب اللہ نے بھی جج کی مخالفت کی ہے۔