جاوید لطیف

عمران خان کو تاحیات این آر او ،پانچ شخصیات کی باقیات آج بھی سہولت کاری دے رہی ہیں’ جاوید لطیف

لاہور(گلف آن لائن)وفاقی وزیر و مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما میاں جاوید لطیف نے کہا ہے کہ عمران خان کو تاحیات این آر او ملا ہے اس کا کون حساب دے گا، پانچ شخصیات کی باقیات آج بھی عمران خان کو سہولت کاری دے رہی ہیں،ہم نے اس لئے اپنی گردن پیش کی کیونکہ قومی جماعتیں بنتی ہیں ریاست پر قربان ہو نے کے لئے ہیں، ہم ریاست پر قربان ہوئے ہیں،جو ہماری قربان کو شک کی نظر سے دیکھے گا توہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں ، پاکستان کومستحکم ہونے دو، پاکستان کو چلنے دو، جنرل (ر)فیض کے فیض عام کو روکا جائے ، ہمارے پاس تو حکومت آئے ابھی صرف ڈیڑھ ماہ ہوئے ہیںاس سے پہلے تو ہمارے پاس کوئی اختیارات نہیں تھے، اگر ہماری حکومت آٹھ ماہ کی ہوتی تو فسادی کب کا انجام کو پہنچ چکا ہوتا،کیا ملکی انٹیلی جنس اداروں کو علم نہیں ملک میں مہنگائی کی وجہ کون ہے ، ان کے پاس تمام تر معلومات ہیں انہیں سب کچھ سامنے لانا چاہیے ۔

پارٹی کے مرکزی سیکرٹریٹ ماڈل ٹائون میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے میاں جاوید لطیف نے کہا کہ چار سالوںمیں روز گرفتاریاں ہوتی تھیں کبھی اس طرح نہ عدالتیں لگتی تھیں نہ سارا دن میڈیا گرفتاری کا تذکرہ ہوتا تھا،مریم نواز ، نواز شریف یا ان کی جماعت کا کوئی شخص گرفتار ہو ، ایک ٹکر کے علاوہ کسی کی فوٹیج ، کسی کا نام دوسری دفعہ لینا گناہ تھا جرم تھا، لیکن آج بھی ایک شخص کے لئے تین تین گھنٹے کے لئے قومی ٹی وی چینلز پر ذہن سازی کا موقع دیا جاتا ہے ،کوئی روکنے والا نہیں ہے ،میں کسی طور پر کسی غیر قانونی غیر آئینی گرفتاری کا حامی نہیں ، مگر کیا غلطی ایک دفعہ ہوتی ہے یا بار بار کی جاتی ہے ،بار بار وہی جرم کرنے کو غلطی نہیں ایک پالیسی ،بیانیہ ،منصوبہ بندی کہا جاتاہے ، اگر تو دبائو میں لا کر اداروں کو اپنے من مرضی کے فیصلے لینے ہیں ،

اگر مسلح کوشش کر کے گھیرائو کر کے دبائو میں لا کر فیصلے لینے ہیں تو پھر اسی طرح چلتے ہیں، اگر گالی دے کر دبائو میں پاکستان کے نظام نے چلناہے تو پھر ہر جماعت کو آزادی دے دیںاور کوئی نظام نہ رہنے دیں ، کوئی عدالتیں کوئی ادارے نہ رہنے دیں ، جو تگڑا ہوگا وہ اپنا نظام لے آئے گا وہ اپنی عدالتیں لگا لے گا ،نہ کوئی معیشت کو پوچھے نہ کوئی مہنگائی کا ذکر کرے گا نہ بیروزگاری کا ذکر کرے گا نہ ہی سفارتکاری ہو گی بلکہ ہم اس جنگل میں چلے جائیں گے جو پاکستان مخالف قوتوں کی خواہش ہے ،اس خواہش کو پورا کون کر رہا ہے ؟۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی قوم کو ناز ہے کہ ہمارے انٹیلی جنس ادارے پاکستان کے خلاف ہونے والی منصوبہ بندی کو جان رہے ہیں ،پہچان رہے ہیں اور اس کو پبلک کر رہے ہیں مگر یہ شکایت ہے کہ میرے انٹیلی جنس اداروں کے پاس یہ خبر نہیں تھی کہ 2011ء میں جب اسے لانچ کیا جارہا تھاکہ یہ پلے بوائے ہے ، کسی کے علم میں نہیں تھا یہ دوسرے کی جیب پر ہاتھ رکھتا ہے ، دو چار سال کی بات نہیں ، 2018ء کے بعد2022ء تک جو کرتوت اس نے کئے ، توشہ خانہ، ملک ریاض سے 50ارب کی بات نہیں کر رہا ،ان 35ارب کی بات نہیں کر رہا جو پانچ ،چھ اضلاع کے لئے لئے گئے لیکن زمین پر ایک دمڑی نہیں لگائی گئی، میںاس ادویات سکینڈل کی بات کر رہاہوں، ڈالر کی بات کر رہا ہوں جو اس وقت آگے پیچھے کیا گیا ، پیٹرول، آٹے چینی کی بات کر رہا ہوں ، کیا میرے انٹیلی جنس اداروں کو علم نہیں ،

کیا اس وقت اداروں کی جانب سے کوئی پالیسی بیان آیا ، کیا میں یہ پوچھنے کا حق بجانب نہیں ہوں؟ ، آج جب یہ سوال ہوتا ہے آٹھ ماہ کی حکومت ہے پکڑ لیں ، بھئی یہ تو بتا دیں گزشتہ چار سال کس کی حکومت تھی یہ صرف اس لئے تھی کہ پکڑو چھوڑو ، ادارے کس لئے ہیں، اداروں کا کام ہے اگر کوئی بھی حکومت وقت ہو ، کوئی ڈکٹیٹ کرے کہ فلاں کو پکڑ لو اور چھوڑ دو اس سے بڑا جرم کوئی ہو نہیں سکتا، اگر ہم سے کوئی یہ سوال کرے کہ آٹھ ماہ کی حکومت ہے حالانکہ میں بار بار کہہ چکا ہوں ہماری حکومت23نومبر2022ء کے بعد جانا جائے ، اس سے پہلے جو کچھ ہو رہا تھا، کون کر رہے تھے سب کو پتہ ہے،جنرل (ر)فیض ، جنرل (ر)باجوہ، جسٹس(ر) ثاقب نثار، جسٹس (ر) آصف سعید کھوسہ اور عمران خان تھے ،ان کی نورا کشتی تھی ،آج بھی ان کے سہولت کار ان کی باقیات سہولت کاری کا کام کر رہی ہیں ۔ سمارٹ بوائے ہے ، جس طرح وہ پاکستان کی تقدیر اور معیشت سے کھیل کھیل رہا ہے، جو کچھ ہوا اس کا دو فیصد ابھی نظر آیا ہے ،

اٹھانے فیصد نظر نہیں آرہا جو اداکار کھیل کھیل رہے ہیں ۔ اگر کوئی یہ سوال کرتا ہے کہ ڈیڑھ ماہ کی حکومت سہی آپ کیوں نہیںاس کو نکیل ڈالتے، میںگزارش کروں گا کہ 2017ء میں بھی ہماری ہی حکومت تھی جب گریڈ 6کے کلرک تھے جووقت کے وزیر اعظم کے خلاف گواہیاں دے رہے تھے، حکومت ہماری تھی مگر ہم سے جو طاقتور تھے وہ کام کرا رہے تھے، آج اگر ایک شکل بدلی ہے تو کسی دوسری صورت میں سہولت کاری ہو رہی ہے ، مجھے عدالتوں کا احترام ہے ، جب میرے اوپر غداری کا مقدمہ بنایا گیا تو بغیر کسی وجہ کے لاہور کے سابق چیف جسٹس قاسم خان نے مجھے عدالت میں بلا یا ،میں تو ریلیف لینے گیا تھاکہ ماتحت عدلیہ کے جج کے اوپر بڑا دبائو ہے کہ مجھے ایک تاریخ نہیں دینی ، تبدیل ہو جائیںیا اندر ہونے کے لئے تیار ہو جائیں ۔

مجھے جب دوسرے دن بلایا گیا وہاں لکھا ہوا پیپر محترم جناب جسٹس (ر)قاسم خان صاحب نے پڑھ کر سنانا کیا کہ غداروں کی پاکستان میں کوئی گنجائش نہیں ، ہم نے سوال کیا بتائیںتو سہی غداری کی کیا ہے ، میری لیڈر کو کچلنے کی دھمکی ہے ، میں نے یہ کہا اگر خدانخواستہ کچھ ہوا تو پاکستان کھپے نہیں کا نعرہ نہیں لگائیں گے ان کو کٹہرے میں لے کر آئیں گے۔ بجائے دھمکیاں دینے والوں کو عدالت بلایا جاتا ہے جو شکایت کر رہا ہے اسے کہا گیا تم غدار ہو ، تمہیں سنگسار کردینا چاہیے ،میں باہر نکلا تو مجھے یہ لگا لوگ میرے اوپر پتھر برسائیں گے کیونکہ میں غدار رجسٹرڈ ہو گیا تھا ، کیا یہ انصاف کے تقاضے تھے، جسٹس (ر)آصف سعید کھوسہ صاحب نواز شریف کے بارے میں کیا کہتے تھے یا ان کی عدالت میں کیا الفاظ بولے جاتے تھے جوآج لوگوں کو رٹا دئیے گئے ہیں ، ملک کو ایٹمی طاقت بنانے والے نواز شریف کے لئے یہ مناسب تھے ،یہ تو آج اس کے لئے بولے جانے چاہیے تھے جو یہ کہتا تھا کہ مجھے حکومت سے ہٹایا تو خدانخواستہ پاکستان کے تین ٹکڑے ہو جانے چاہئیں، وہ اور اس کے حواری بات کر رہے ہیں

کہ ادارے اور ریاست ریڈ لائن نہیں بلکہ عمران خان پر ہاتھ ڈالا گیا تو وہ ریڈ لائن ہے ، عمران خان کو گرفتار کیا گیا تو خدانخواستہ پاکستان کے ٹکڑے ہو جائیں گے، یہ قوم کو پیغام دے رہے ہو ، نوجوانوں کی یہ ذہن سازی کر رہے ہو جو تگڑا ہے وہ جو چاہے کر لے ۔ ایک بات ذہن میں رکھیں ہم نے ریاست کے لئے بڑی قربانی دی ہے ، اس کے چار سال گند کو صاف کرنے کے لئے اپنی سیاست کی قربانی دی ہے ، کیا انٹیلی جنس اداروں کے علم میں نہیں ہے مہنگائی کیوں ہوئی ہے، ڈالر کیوں مہنگا ہوا ہے ، کس کے اعمال ہیں جو اس حکومت کے سر آئے ہیں ،اس کے چار سال ہر بچہ یہ بات کرتا تھا اس کو چھ ماہ دیدئیے گئے یاعمران خان اپنی مدت پوری کر گیا تو اس کی ٹکٹ لینے والا کوئی نہیں ہوگا، تو ہمیں پھر اپنی گردن پیش کرنے کی کیا ضرورت تھی؟، ہم نے اس لئے گردن پیش کی کیونکہ قومی جماعتیں بنتی ہیں ریاست پر قربان ہو نے کے لئے ہیں، ہم ریاست پر قربان ہوئے ہیںلیکن جو ہماری قربان کو شک کی نظر سے دیکھے گا ،ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں ہم اس کو کھولیں گے۔ پاکستان کومستحکم ہونے دو، پاکستان کو چلنے دو، اس جذبے سے ہم اپنی سیاست کی قربانی دے کر اس کی کوشش کر رہے ہیں کہ ملک میں استحکام آنے دیں ،جنرل (ر)فیض کے فیض عام کو روکا جائے ، ہمیں 2013ء میں پانچ سال کی مدت کے لئے ملی تھی، ہم بھی ایک پیج پر تھے، لیکن آج عمران بھی کہہ رہا ہے

، پرویزالٰہی بھی کہہ رہے ہیں، جنرل (ر) فیض بھی کہہ رہے ہیں،جسٹس (ر) ثاقب نثار بھی بول رہے ہیں،ایک دن جنرل (ر)باجوہ بھی بولیں گے ،جسٹس (ر) آصف سعید کھوسہ بھی بولیں گے ملک کی تباہی کس کے کہنے اور کیوں کی۔ملک کی تباہی کے پانچ کردار ہیں ،اگر ان کی جیبیں خالی کی جائیں تو ملک کو بیرون ملک سے قرضہ لینا ہی نہ پڑے۔انہوں نے کہا کہ عمران خان کو تاحیات این آر او ملا ہے اس کا کون حساب دے گا، عمران خان اپنی بیٹی کے کیس پر جواب کیوں نہیں دیتے جواب دیں تاریخ پر تاریخ لے رہے ہو، ہمیں کہا کرتے تھے ثبوت لے کر آئو لیکن جسٹس (ر) ثاقب نثار اینڈ کمپنی ،جنرل (ر)فیض اورجنرل (ر) باجوہ کی وجہ سے اسے مانتے ہی نہیں تھے۔ملک کو چلنے دینا ہے تو انٹیلی جنس اداروں کو قوم کو سب کو بتانا ہوگا تب ہی ملک چلے گا۔ہم ریلیف کی بات نہیں کررہے اگر ہماری حکومت آٹھ ماہ کی ہوتی تو فسادی کب کا انجام کو پہنچ چکا ہوتا،ہر ادارہ آزاد ہونا چاہیے ،اگر قوم کی آٹا خریدنے صلاحیت ختم ہوگئی ہے تو انٹیلی جنس والے قوم کو اس کی وجہ نہیںبتا سکتے فواد چوہدری نے اداروں کو بار بار دھمکیاں دیں ،ادارے بیانات پرنوٹس تاخیر سے لیتے ہیں اگر اس طرح چلانا ہے تو پھر طاقتور اپنا نظام چلا سکتا ہے،ایف آئی آر اسلام آباد میں ہوئی نوٹس لاہور ہائی کورٹ نے لے لیا ۔

جو جیلوں میں قوم کے بے گناہ لوگ بیٹھے ہیں کیا عمران خان ان کی آواز بھی اٹھائیں گے،پانچ شخصیات کی باقیات موجود ہیں جو آج بھی عمران خان کو سہولت کاری دے رہی ہے،انہوں نے کہا کہ مفتاح اسماعیل وزیر خزانہ بنے تھے تو چار سال حکومت کی بات بھی کرتے رہے ان پر غور کرنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے خلاف عام آدمی اور ان کے خلاف سرکاری ملازم مدعی بنتا ہے، ہم نے ایکسٹینشن کی بات نہیں کی تھی، اس وقت نام لئے جب وہ حاضر سروس تھے۔کسی جماعت سے کوئی بھی شخص ہو اگر کوئی بغاوت یا انتشار پر اکساتا ہے تو انجام تک پہنچانا ریاست کی ذمہ داری ہے، اگر فسادی کو انجام نہ پہنچایا تو ریاست خطرے میں پڑ جائے گی، کسی بھی حکومت کا نہیں اداروں کا کام ہے جو بھی غلط کام کرے وہ نوٹس لے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں