اسلام آباد (گلف آن لائن) عالمی بینک نے دنیا بھر میں غذائی افراط زر سے متاثرہ ممالک کی فہرست جاری کردی ان ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے، لیکن پاکستان میں غذائی افراط زرترکی اور سری لنکا سمیت دیگر دوسرے ممالک کی طرح خراب نہیں ہے جو سب سے زیادہ متاثرہ 10سرفہرست ممالک میں شامل ہیں۔ورلڈ بینک کی جانب جاری ہونیوالی فوڈ سیکیورٹی اپ ڈیٹ کے مطابق پاکستان میں غذائی افراط زر کی شرح 30فیصد سے کم ہے اور غذائی افراط زر کی حقیقی شرح 5فیصد سے بھی کم ہے۔فہرست میں دیئے گئے افغانستان کے اعداد و شمارسے پتہ چلتا ہے کہ ملک میں غذائی افراط زر 5فیصد سے 30فیصد کے درمیان ہے جبکہ غذائی افراط زر کی حقیقی شرح 2 فیصد سے کم ہے۔بھارت میں غذائی افراط زر 2فیصد سے 5فیصد کے درمیان اور حقیقی غذائی افراط زرصفر فیصد سے نیچے ریکارڈ کی گئی، یعنی اس کا کوئی وجود نہیں ہے۔
بنگلہ دیش میں غذائی افراط زر کی شرح تقریبا 8فیصد ریکارڈ کی گئی جبکہ غذائی افراط زر کی حقیقی شرح کا کوئی وجود نہیں ہے۔بھارت، روس، ایتھوپیا، جنوبی سوڈان اور ویتنام ان ممالک میں شامل ہیں جہاں غذائی افراط زر صفر سے نیچے ہے۔ یہ اعداد و شمار سرکاری کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی)پر مبنی ہیں جیسا کہ ان ممالک میں حکومت کی طرف سے پیمائش کی جاتی ہے۔عالمی بینک نے ستمبر سے دسمبر 2022کے درمیان اعداد و شمار جمع کئے اوردنیا کے بیشتر ممالک میں گزشتہ ایک سال کے دوران اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔کینیڈا اورامریکہ میں غذائی افراط زرکی شرح 10فیصد اور غذائی افراط زر کی شرح 4فیصد ہے۔غذائی افراط زرسے متاثر ہونیوالے ٹاپ 10ممالک کی فہرست سے پتہ چلتا ہے کہ زمبابوے 285 فیصد افراط زر کے ساتھ سرفہرست ہے۔
ترکی میں بھی لوگ 77فیصد افراط زر کیساتھ خوفناک صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔زمبابوے میں افراط زر285فیصد وینزویلا 158فیصد لبنان میں 143فیصد ارجنٹائن 95 فیصد ترکیہ 77فیصد گھانا 60 فیصد سری لنکا 59 فیصد روانڈا 59 فیصد ہیٹی 53فیصد ہے۔ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ متاثر ہونیوالے ممالک افریقہ، شمالی امریکہ، لاطینی امریکہ، جنوبی ایشیا، یورپ اور وسطی ایشیا میں ہیں۔اقوام متحدہ کے نظام اور بچوں میں غذائی قلت سے متعلق اقوام متحدہ کے گلوبل ایکشن پلان نے ایک مشترکہ پریس ریلیز میں ان 15 ممالک میں سب سے زیادہ کمزور بچوں کے تحفظ کے لیے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا ہے جو خوراک کے بحران سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ان ممالک میں 3 کروڑ سے زائد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں جن میں سے 80لاکھ بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔تنازعات، موسمیاتی تبدیلیاں، عالمی وبا کرونا اور زندگی گزارنے کے لیے بڑھتے ہوئے اخراجات شدید غذائی قلت کے شکار بچوں کی تعداد میں اضافہ کر رہے ہیں کیونکہ ان کی صحت، غذائیت اور دیگر زندگی بچانے والی خدمات تک رسائی میں کمی واقع ہو رہی ہے۔عالمی بینک کا کہنا ہے کہ یوکرین پر روس کے حملے نے فوڈ سیکیورٹی کی صورتحال کو بدترین بنا دیا ہے۔