بیجنگ (گلف آن لائن)کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی مرکزی کمیٹی اور ریاستی کونسل کی جاری کردہ “مرکزی دستاویز نمبر 1” نے ایک بار پھر “سان نونگ” یعنیٰ زراعت، دیہات اور کسان سے متعلق امور کی اہمیت کا اعادہ کیا، اور رواں سال اور مستقبل قریب کے لئے، اناج اور اہم زرعی مصنوعات کی پیداوار اور فراہمی کو مستحکم کرنے، زرعی بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کو مضبوط بنانے، زرعی سائنس و ٹیکنالوجی اور وسائل کی تلاش کو مضبوط بنانے، غربت کے خاتمے میں کامیابیوں کو مستحکم اور وسیع کرنے، دیہی صنعتوں کی اعلیٰ معیار کی ترقی کو فروغ دینے، کسانوں کے لئے آمدنی میں اضافے ،ماحول دوست اور خوبصورت دیہات کی تعمیر کو مضبوط بنانے سمیت دیگر امور کے بارے میں رہنما ہدایات جاری کی گئیں۔بد ھ کے روز چینی میڈ یا کے مطا بق
درحقیقت “مرکزی دستاویز نمبر 1” ، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ، چین کے اعلیٰ ترین رہنما ادارے کی جانب سے ہر سال جاری کی جانے والی پہلی رہنما دستاویز ہے ، جو عام طور پر سال کے آغاز میں جاری کی جاتی ہے۔ گزشتہ برسوں کے دوران ، “مرکزی دستاویز نمبر 1” نے بناء کسی استثناء کے “سان نونگ” کے امور پر پوری توجہ مرکوز کی ہے ، جس سے چینی قیادت کی متعلقہ امور کو دی جانے والی نمایاں اہمیت کی عکاسی ہوتی ہے اور اس حوالے سے ایک مضبوط اشارہ دیا جاتا ہے۔
کسی بھی ملک یا قوم کے لئے، غذائی تحفظ کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے. خوراک لوگوں کے ذریعہ معاش اور سلامتی کی بنیاد ہے ، اور خوراک میں خود انحصاری ، قومی خودمختاری یا یہاں تک کہ بقا سے بھی جڑا اہم ترین موضوع ہے۔تاریخ میں خوراک کی سلامتی سے متعلق بے شمار کہانیاں اور اسباق موجود ہیں۔ قدیم چین میں “ریشم کی جنگ ” سے لوگ بخوبی آگاہ ہیں، اور ماضی قریب میں “چلی تانبے کی کان ” کا منصوبہ، جو ہمیں بتاتے ہیں کہ ایسے لوگ جو دور اندیشی سے محروم ہیں تو مصیبت ان کے سر پر ہوگی. 2000 سال قبل چین میں متحارب ریاستوں کے دور میں چھی شاہی خاندان کے بادشاہ نے بالادستی قائم کرنے کے لئے ایک منصوبے پر عمل کیا جس کے تحت ملک کی تمام زمینوں پر خوراک کی کاشت کا حکم دیا گیا، دوسری جانب انہوں نے تمام لوگوں کو ریشم کے کپڑے پہننے کا حکم بھی دیا جس کی وجہ سے ریشم کی قیمت نمایاں حد تک بڑھ گئی۔
ہمسایہ ریاستوں لو اور لیانگ کے لوگوں نے دیکھا کہ ریشمی کپڑے کی تجارت بہت منافع بخش ہے ، اس لئے انہوں نے اناج اگانا بند کردیا اور منافع کمانے کے لئے ریشم تیار کرنے اور ریشمی کپڑے کی تجارت کا رخ کیا۔ ایک سال بعد ، ریاست چھی نے ملک بھر میں ریشمی کپڑے پہننے پر پابندی عائد کر دی اور عام سادہ لباس پہننے کا حکم جاری کیا ، دوسری جانب ہمسایہ ممالک کو اناج کی فراہمی بند کرنے کا حکم بھی دیا گیا ،اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لو اور لیانگ کے بے شمارلوگ بھوک سے مر گئے۔یہ دیکھ کر دونوں ریاستوں کے بادشاہوں نے فوری طور پر لوگوں کو اناج کی کاشت کے لئے کھیتوں میں واپس جانے کا حکم دیا ، لیکن بہت دیر ہو چکی تھی!
تاریخ اگرچہ کبھی خود کو دہراتی نہیں ، لیکن یہ ہم قافیہ اشعار کی طرح ہوتی ہے ۔ انسانی تاریخ میں اس طرح کی کہانیاں بار بار در پیش آتی رہتی ہیں۔ایک مثال یہ بھی ہے کہ پچھلی صدی کی ستر کی دہائی میں چلی کے صدر سالواڈور ایلنڈے اقتدار میں آئے اور اعلان کیا کہ چلی کو ایک سوشلسٹ ملک بنایا جائے گا۔ امریکہ نے تانبے کی برآمدات پر بہت زیادہ انحصار کرنے والی چلی کی معیشت کو ڈبونے کے لیے تانبے کی قیمتوں میں اضافے کا ایک منصوبہ مرتب کیا، جس کے نتیجے میں چلی نے اپنی بنیادی معاشی تعمیر کو نظر انداز کیا اور تانبے کی کانوں کا حد درجہ استعمال کیا۔ دو سال بعد، امریکہ نے تانبے کی قیمتوں میں کمی کر دی ، جس کے نتیجے میں چلی کی حکومت دیوالیہ ہو گئی، امریکہ نواز اگستو پینوشیٹ اقتدار میں آیا، اور امریکہ بناء کسی جنگ کے جیت گیا۔ اس کے علاوہ ایک اور مثال ہے کہ مغربی نوآبادیاتی حکمرانوں نے افریقہ میں کپاس ، کافی اور ربڑ جیسی “برآمد پر مبنی” نقد آور فصلوں کی کاشت کو بھرپور طریقے سے فروغ دیا تھا، جس نے افریقی زرعی پیداوار کو شدید نقصان پہنچایا ،جس کے نتائج کو دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔
قدیم زمانے سے ہی ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں، لیکن یہ المیہ کبھی رکا نہیں ہے۔ چین کے پاس دنیا کی صرف 9 فیصد قابل کاشت اراضی اور 6 فیصد تازہ پانی ہے، جو دنیا کی آبادی کے پانچویں حصے کی خوراک کی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ آبادی میں اضافے، قدرتی آفات اور بین الاقوامی افراتفری کے باوجود چین میں ایک طویل عرصے سے اناج کی فراہمی ایک “حساس توازن” میں ہے، لہذا 1.8 بلین ایم یو قابل کاشت زمین کی سرخ لکیر پر قائم رہنا، مطلق غذائی تحفظ اور “سان نونگ” کی پائیدار ترقی چین کی قومی بقا اور ترقی کی ضمانت کی باٹم لائن ہے، اور یہ ہر سال کے آغاز میں “مرکزی دستاویز نمبر 1” کا بنیادی جوہر بھی ہے۔
1936 میں کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کے رہنما ماؤ زے تنگ نے غیر ملکی صحافی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا “جو بھی کسان جیتتا ہے وہ چین کی جیت ہے۔ اور جو کوئی زمین کا مسئلہ حل کرتا ہے وہ کسان جیت جاتا ہے”۔ سنہ 2013 میں چینی صدر شی جن پھنگ نے ایک دیہی علاقے کے دورے کے دوران کہا تھا “دیہی ترقی ، معاشرتی خوشحالی کا آئینہ ہے”۔ چینی کمیونسٹوں کی جڑیں زمین سے جڑی ہوئی ہیں، لہذا وہ جانتے ہیں کہ اگر دیہات خوبصورت ہیں تو چین خوبصورت ہے۔ اگر کسان امیر ہیں تو چین امیر ہے۔ اگر زراعت مضبوط ہے تو چین مضبوط ہے!خوراک کا مسئلہ، ملک و قوم کی بقا کی بنیاد ہے، زندگی اور موت کا معاملہ ہے ،جس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا!