اسلام آباد (گلف آن لائن)وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہے میچ فکسنگ کی طرح مبینہ طور پر کیس فکسنگ کی باتیں سامنے آرہی ہیں، آڈیو ٹیپس منظر عام پر آنا نہایت سنگین واقعہ ہے جس نے ملک کے نظام عدل پر بہت بڑا سوالیہ نشان لگادیا ہے،عمران نیازی کے پاس کونسی سلیمانی ٹوپی ہے کہ عدالتیں اس کے آگے بے بس ہیں،چیف جسٹس کے کاندھوں کے اوپر بہت بڑی ذمے داری ہے،وزیراعظم کو تجویز دی معاشی صورتحال پر سپریم کورٹ، جی ایچ کیو کو پریزینٹیشن دیں، ججوں، جرنیلوں نے نا اہل اور نا تجربہ کار شخص کو پاکستان پر مسلط کیا،پاکستان کے سیاست دانوں، اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ اور بیوروکریسی سب کو اپنے اپنے کردار کا جائزہ لینا چاہیے،الیکشن کرانا آسان نہیں، آئینی ہنگامی مالی معاملات بھی ہیں،معاشی صورتحال سے نکلنا ہے تو سب کو ذمے داری کے ساتھ اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
جمعہ کو یہاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ ملک کے منتخب وزیر اعظم کو بغیر اپیل کے حق کے عہدے سے ہٹادیا گیا، اس اقدام نے پاکستان کی عالمی سطح پر ساکھ کو بے پناہ نقصان پہنچایا۔انہوں نے کہا کہ میں چین گیا تو ایک بڑے کاروباری گروپ کے سربراہ سے ملاقات ہوئی، میں نے پوچھا آپ پاکستان میں سرمایہ کر رہے تھے تو آپ کے اس پروجیکٹ کا کیا بنا تو چینی سرمایہ کار نے جواب دیا کہ آپ اپنے وزیر اعظم کو چٹکی بجا کر فارغ کرسکتے ہیں، میں تو ایک بیرونی سرمایہ کار ہوں، مجھے اپنے 2 ارب کی سیکیورٹی کا سوچنا پڑے گا۔انہوںنے کہاکہ ہمیں پتا ہی نہیں ہوتا کہ جب ہم اس قسم کے ناٹک کرتے ہیں تو اس سے ملک کی عالمی ساکھ کو کتنا نقصان ہوتا ہے،
اس کی ایک اور مثال ریکوڈک ہے جہاں اربوں روپے کے قدرتی ذخائر ہیں تاہم ہم نے اس سے ایک ڈالر نہیں کمایا بلکہ الٹا 9 ارب ڈالر کا پھندا اپنے گلے میں ڈال لیا، اس طرح کی مثالیں آپ کو دنیا میں کہیں نہیں ملتیں۔وزیر منصوبہ بندی نے کہا کہ ہم نے گزشتہ برسوں کے دوران جھوٹے مقدمات میں جیلیں کاٹیں، انصاف لینے کے لیے، جھوٹے مقدمات میں ضمانتیں لینے کے لیے مہینوں مہینوں انتظار کیا، آج پی ٹی آئی کے لوگ کسی مقدمے میں گرفتار ہوتے ہیں تو چند دنوں کے اندر ان کی ضمانت ہوجاتی ہے، کاش انصاف کی یہ رفتار اس دور میں بھی ہوتی جب ہمارے خلاف جھوٹے مقدمے بنائے جا رہے تھے۔احسن اقبال نے کہا کہ آج شاید عدلیہ آزاد ہے،
کیونکہ ہم اسے استعمال کرنے کی کوشش نہیں کر رہے، تاہم اس وقت عدلیہ فیصلے کرنے میں آزاد نہیں تھی، میں معزز عدلیہ کے معزز ججوں سے احترام کے ساتھ سوال کرتا ہوں، شاید مجھے اس کا جواب مل سکے کہ عمران خان نے پنجاب کے بلدیاتی اداروں کو غیر آئینی طور پر برطرف کیا، ایک سال دھکے کھانے کے بعد جسٹس فائز عیسیٰ نے اس کا نوٹس لیا، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم 3 رکنی بینچ نے بلدیاتی اداروں کو بحال کیا، 7 ماہ ساتھ عثمان بزدار اور عمران خان سپریم کورٹ کے فیصلے کے ساتھ فٹ بال کھیلتے رہے، فیصلے کو اپنے پاؤں کے نیچے روندتے رہے۔انہوں نے کہا کہ کوئی ماتحت عدلیہ کا جج بھی اپنے فیصلوں کی اتنی بے توقیری پر آنکھیں بند نہیں کرتا لیکن 7 مہینے تک فیصلے کو ماننے سے انکار کا، فیصلے کو رد کی ٹوکری میں پھینکنے کا نوٹس تک نہیں لیا،
ان کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دی جاتی تھی، اس کو بھی التوا میں ڈال دیا جاتا ہے، میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ عمران نیازی نے کونسی ایسی سلیمانی ٹوپی پہن رکھی ہے کہ پاکستان کی عدالتیں، پاکستان کا قانون، اس کا آئین سب اس کے آگے بے بس ہے۔انہوںنے کہاکہ عمران خان کے پاس ایک سلیمانی ٹوپی ہے کہ اس نے گالیاں نکالنے کی سائنس سیکھی ہوئی ہے کہ جہاں یہ دیکھتا ہے کہ میں پھنسنے لگا ہوں، اپنے سوشل میڈیا کے ذریعے گالی گلوچ کرانا شروع کردیتا ہے، کیا اب پاکستان میں فیصلے اس بنیاد پر ہوں گے کہ کس کے پاس گالیاں نکالنے کی زیادہ بڑی طاقت ہے یا فیصلے قانون کے مطابق ہوں گے۔احسن اقبال نے کہا کہ عمران خان نے سات ماہ تک سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل نہیں ہونے دیا اور جب ان کی مدت ختم ہونے لگی تو آخری مہینے میں ان کو بحال کردیا، میں نے توہین عدالت کا مقدمہ بھگتا،
اس کی بنیاد صرف اتنی بات تھی کہ مجھ پر اس وقت کے چیف جسٹس کی جانب سے الزام لگا گیا کہ میں نے سفارش کرکے ایک شخص کو وائس چانسلر لگایا، اس پر میں نے احترام کے ساتھ کہا کہ آپ کو کس نے یہ حق دیا کہ آپ مجھ پر اتنا بڑا الزام لگائیں، اگر آپ کی عزت ہے تو ہماری بھی عزت ہے، آپ نے مجھے سنیں بغیر اتنا بڑا الزام لگادیا تو اتنے کلپ پر مجھے توہین عدالت کا نوٹس دے دیا گیا۔انہوںنے کہاکہ اس کیس میں 4 ماہ تک مجھے ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا، اس میں جسٹس مظاہر نقوی نے مجھے ادب و احترام کا سبق بڑھایا، میں چیف جسٹس کی بات پر بس اتنا کہا کہ مجھے سنے بغیر، چارج شیٹ کیے بغیر اتنا بڑا الزام لگادیا توہین عدالت کے کیس کا سامنا کیا ، عمران خان کے پاس کونسی سلیمانی ٹوپی ہے کہ وہ عدالتوں کے فیصلوں کے پرخچے آڑائے، ریڈ زون میں آکر جو مرضی کرجائے،
اس سے کوئی پوچھ ہی نہیں سکتا، وہ یک طرفہ طور پر پورے ملک کے ساتھ کھیلتا جا رہا ہے۔احسن اقبال نے کہا کہ اب میچ فکسنگ کی طرح مبینہ طور پر کیس فکسنگ کی باتیں سامنے آرہی ہیں، یہ نہایت سنگین واقعہ ہے، ہم پاکستان کے سپریم کورٹ کا ادب کرتے ہیں، سپریم کورٹ بے توقیر ہوگی تو رول آف لا بے توقری ہوجائے گا، میں چیف جسٹس نے التجا کرتا ہوں کہ آپ کے کاندھوں کے اوپر بہت بڑی ذمے داری ہے، اس ادارے کو کسی بھی تنازع سے بالا تر رکھنا ہر شہری کی خواہش ہے۔احسن اقبال نے کہا کی یہ جو آڈیو ٹیپس منظر عام پر آئی ہیں ، یہ معمولی نہیں ہیں، انہوں نے ملک کے نظام عدل پر بہت بڑا سوالیہ نشان لگایا ہے، اگر یہ ٹیپس جھوٹی ہیں تو جس نے یہ جھوٹا الزام لگایا ہے اس کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے اور اگر یہ ٹیپس سچی ہیں تو پھر میں سمجھتا ہوں کہ اس ٹیپ کے کرداروں کو اپنے اس کردار کے لیے جوابدہ ہونا چاہیے۔وزیر منصوبہ بندی نے کہا کہ اس وقت پاکستان بحرانوں میں گھرا ہوا ہے،
ہم اس وقت مزید عدالتی تنازعات کا متحمل نہیں ہوسکتے، آج ہم بد ترین معاشی بحران پر کھڑے ہیں، جب ہم نے حکومت سنبھالی تھی تو میں نے وزیراعظم کو تجویز دی تھی کہ آپ ملک کی معاشی صورتحال کے حوالے سے تین اداروں، سپریم کورٹ، جی ایچ کیو اور پاکستان کی فیڈریشن آف چیمبرز کو جا کر پریزینٹیشن کہ دیں، بریفنگ دیں کہ ہمیں کیا صورتحال مل رہی ہے اور آئندہ 2 برسوں میں ملک کی کیا صورتحال ہوسکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے وضع داری میں ایسا نہیں کیا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اندازہ ہونا چاہیے کہ اس وقت پاکستان اپنی تاریخ کے بد ترین معاشی بحران میں سے ایک سے گزر رہا ہے اور اگر ہم نے ملک کی سالمیت و خودمختاری کا دفاع کرنا ہے تو ہمیں پاکستان کو آئینی حکمرانی کے راستے پر ڈالنا ہے۔انہوںنے کہاکہ پاکستان کے سیاست دانوں، اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ اور بیوروکریسی سب کو اپنے اپنے کردار کا جائزہ لینا چاہیے، سب کو اپنی پسند نا پسند سے بالا تر ہوکر آئین و قانون کے مطابق کردار ادا کرنا چاہیے، ہماری پسند کا محور پاکستان ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ بد قسمتی ہے کہ وہ شخص جو ملک کے مسائل کا ذمے دار ہے وہ الزام تراشیاں کر رہا ہے، افسوس ہے کہ ہمارے ججوں اور جرنیلوں نے اس نا اہل اور نا تجربہ کار شخص کو پاکستان کے اوپر پر مسلط کیا، اپنی گاڑی تو وہ کبھی ناتجربہ کار ڈرائیور کے حوالے نہیں کریں گے لیکن ملک کی چابیاں اس کے ہاتھوں میں دے دی گئیں جس نے کبھی یونین کونسل تک نہیں چلائی تھی، اس نے ناتجربہ کار ڈرائیور کی طرح اپنا سر پھاڑ کر بیٹھا ہے اور ملک کی گاڑی کو بھی چکنا چور کردیا ہے۔احسن اقبال نے کہا کہ اگر ہم نے اس معاشی صورتحال سے نکلنا ہے تو سب کو ذمے داری کے ساتھ اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، سیاسی تنازعات سے بچنا ہے، ملک میں امن و استحکام برقرار رکھنا ہے، موجودہ بحران پر قابو پانے کے لیے کسی نئے بحران کو پیدا نہیں ہونے دینا، عدلیہ اپنا کام کرے، انتظامیہ اپنا کام کرے اور پارلیمنٹ اپنا کام کرے، یہ ہی جمہوریت کا حسن ہے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ جب جہاں کوئی ادارہ اپنی حدود سے تجاوز کرے گا،، دوسرے کے کام میں مداخلت کرے گا تو اس کے نتائج 22 کروڑ عوام کو اسی طرح بھگتنا پڑیں گے جس طرح آج ہم بھگت رہے ہیں۔
انہوںنے کہاکہ اس وقت ملک میں ہمیں بد ترین معاشی بحران کا سامنا ہے، عوام پی ٹی آئی کے کیے گئے آئی ایم ایف پروگرام معاہدے کے باعث بد ترین مہنگائی کا سامنا کر رہے ہیں، حکومت کی آمدنی 5 ہزار ارب روپے جب کہ قرضوں کی ادائیگی 52 سو ارب روپے ہوچکی ہے، جتنی آپ کی آمدنی ہے اس سے زیادہ آپ کے قرضوں کی آدائیگی ہوچکی ہے تو کیا یہ ہنگامی صورتحال نہیں ہے، لہذا 6 ماہ تک ہم نے الیکشن الیکشن کھیلنا ہے، الیکشن کرانا آسان کام نہیں ہے، اس کے آئینی و مالی معاملات بھی ہیں۔
احسن اقبال نے کہا کہ آڈیو لیکس کے معاملے کی تحقیقات کرانے کے معاملے کو دیکھیں گے۔انہوں نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ جب ہم اس معاملے کی تہہ تک پہنچیں گے تو ہوسکتا ہے کہ یہ معاملہ سابق امریکی صدر نکسن کے واٹر گیٹ والا نکل آئے۔وزیر منصوبہ بندی نے کہا کہ صدر نکسن کو یہ خبط تھا کہ میں تاریخ کے اندر عظیم صدر ہوں، میری ہر بات ریکارڈ ہونی چاہیے تو انہوں نے وائٹ ہاؤس کے اندر اپنی تمام گفتگو ریکارڈ کرنے کا انتظام کیا تاہم جب واٹر گیٹ اسکینڈل استعمال ہوا تو وہی ٹیپس ان کے اپنے خلاف استعمال ہوگئیں تو کوئی پتا نہیں کہ یہ سارا بندوبست عمران خان ہی کرکے گئے ہوں۔