اسلام آباد (گلف آن لائن) پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی اور وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ جب ججز ہماری حدود میں تجاوز کرینگے تو آواز اٹھانا ہماراحق ہے ، عدلیہ نے آئین کو ری رائٹ کرکے اپنے اختیار سے تجاوز کیا، نواز شریف کیساتھ جس طرح زیادتی ہوئی، انہیں تاحیات نااہل کیا گیا، کون سا ایسا ادارہ ہے جس کے کسی فرد کو کوئی اور ادارہ نااہل کردے، یہ کہاں کی مثال، کہاں کا قانون ہے؟پوری سپریم کورٹ بیٹھ کر مسئلے کا حل تلاش کرے ،معاملہ فل کورٹ کا متقاضی ہے ، پانامہ سے شروعات کریں ،مسلسل بحران میں رہنے کی وجہ سے ملکی معیشت تباہی کے دہانے پر ہے،پاکستان بنانے والے عمران خان کی طرح اسپانسرڈ لوگ نہیں تھے، جیل بھرو تحریک اب فلاپ ہوچکی ہے،
اب ڈوب مرو تحریک چلائیں۔ جمعہ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر دفاع نے کہا کہ پوری سپریم کورٹ بیٹھ کر اس مسئلے کا حل تلاش کرے اور ایسا حل نکالے کہ جو نہ صرف ہمارے لیے تریاق ہو بلکہ جو مرض ہمیں دہائیوں سے لاحق ہیں ان کا بھی بندوبست کرلیا جائے۔انہوںنے کہاکہ اس وقت سپریم کورٹ میں از خود نوٹس کی سماعت ہورہی ہے، کچھ سوالات مرتب کیے گئے ہیں جن کے جوابات سپریم کورٹ میں ڈھونڈے اور دئیے جائیں گے جس میں سیاسی جماعتوں، بار کونسلز سمیت متعدد فریقین ہیں۔
خواجہ آصف نے کہا کہ گزشتہ روز شروع ہونے والا مقدمہ نہایت اہمیت کا حامل ہے جس کے مثبت و منفی اثرات موجودہ نہیں بلکہ مستقبل میں بھی ملک کے سیاسی اور عمومی حالات پر مرتب ہوسکتے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ خوش آئند بات ہے کہ 9 ججز کا بینچ تشکیل دیا گیا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ معاملہ فل کورٹ کا متقاضی ہے۔انہوں نے کہا کہ ایک شکایت رہتی ہے کہ پارلیمنٹرینز یا سیاسی کارکنان، عدلیہ کا نام لے کر تنقید کرتے ہیں، میں ان کا نام نہیں لیتا جن پر تنقید ہوتی ہے لیکن ان کا نام لیتا ہوں جن پر تنقید نہیں ہوتی ہے۔
انہوں نے سوال کیا کہ اعلیٰ عدلیہ خود پوچھے کہ جسٹس منیر پر تنقید ہوتی ہے لیکن جسٹس کارلینیئس پر کیوں نہیں ہوتی، جسٹس ارشاد حسن خان، جسٹس ریاض شیخ پر تنقید ہوتی ہے لیکن جسٹس سعید الزماں صدیقی، ناظم صدیقی پرتنقید کیوں نہیں کی جاتی۔وزیر دفاع نے کہا کہ ماضی قریب میں ججز کا نام لے کر تنقید کی جاتی ہے، پاناما کے ججز پر تنقید کی جاتی ہے جب وہ اپنی کرسیوں پر بیٹھ کر ہماری حدود میں تجاوز کریں گے تو ہمارا بھی حق بنتا ہے کہ ہم آواز اٹھائیں کہ انہوں نے اپنی کرسیوں کے تقاضے پورے نہیں کیے، جن میں جسٹس ثاقب نثار، جسٹس آصف سعید کھوسہ کا نام ہے لیکن ناصر الملک اور تصدق جیلانی کا نام نہیں آتا۔انہوں نے کہا کہ میرا حق نہیں بنتا کہ اس تفریق کی وجوہات ایوان میں بیان کروں، یہ چیزیں میں عدلیہ پر چھوڑتا ہوں کہ کن لوگوں کے نام لیے جاتے ہیں کن کے نہیں لیے جاتے۔
انہوںنے کہاکہ سپریم کورٹ کے انتخابات سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت میں ایک بات کی گئی کہ کیوں نہ اسمبلیوں کی تحلیل پر بات کرلی جائے کہ کیا وہ ٹھیک تھی یا غلط۔خواجہ آصف نے کہا کہ اس سے پہلے چلے جائیں کہ جب اعلیٰ عدلیہ نے اپنے اختیار سے تجاوز کرتے ہوئے آئین کی دفعہ 63ـاے کو ری رائٹ کیا، یہ ان کا کام نہیں تھا اور جس آئینی بحران کا ہم اس وقت سامنا کررہے ہیں یہ اس کا براہِ راست اثر ہے۔انہوں نے کہا کہ پورا ملک سیاسی، معاشی اعتبار سے رک جانے کے قریب پہنچا ہوا ہے،
یہ سارا سلسلہ اگر جانا ہے تو اس وقت جو لوگ ملوث تھے ان سب کے براہِ راست اور بالواسطہ اعترافات بھی آچکے ہیں کہ پاناما کیس میں نواز شریف کے ساتھ کیا ہوا تھا۔وزیر دفاع نے کہا کہ نواز شریف کے ساتھ جس طرح زیادتی ہوئی، انہیں تاحیات نااہل کیا گیا، کون سا ایسا ادارہ ہے جس کے کسی فرد کو کوئی اور ادارہ نااہل کردے، یہ کہاں کی مثال، کہاں کا قانون ہے۔انہوںنے کہاکہ یہ اس وقت سے شروع ہونا چاہیے، اسٹیبلشمنٹ کے بھی اعترافات موجود ہیں کہ ہم نے اس میں مداخلت کی، عدلیہ کے اعترافات بھی موجود ہیں کہ اس کیس میں تجاوز ہوا تھا بلکہ پی ٹی آئی کی قیادت، شاہ محمود قریشی بھی ریکارڈ پر کہہ چکے ہیں کہ نواز شریف کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی۔خواجہ آصف نے کہا کہ اس ایوان کے توسط سے میری عدالت عظمیٰ سے درخواست ہے کہ پوری کورٹ کا بینچ بنا کر پاناما سے شروعات کریں،
اس ملک اور خصوصاً سیاسی برادری کے ساتھ آئینی اور قانون کے لبادے میں جو زیادتی ہوئی ہے، ایک ایسے شخص کو مسلط کیا گیا کہ جس نے 4 سے 5 سال کے اندر ملک کو تہہ و بالا کردیا۔انہوں نے کہا کہ ہم نے آئینی طور پر تحریک عدم اعتماد کا حق استعمال کیا گیا تاہم ساتھ ہی حکومت تحلیل کردی گئی اور جس نے کی وہ آج بھی صدارتی محل میں بیٹھا ہوا اور آئین کی دفہ 6 کی خلاف ورزی کا مرتکب ہے کیا کسی نے اس بات کا نوٹس لیا۔انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے کہ اس اقدام کو غیر آئینی قرار دے کر اسمبلی بحال کردی تاہم بجائے اس کے باقی قانونی مراحل بھی اسی طرح طے ہوتے 63ـاے کی دوبارہ تشریح کردی گئی پھر مسلم لیگ (ن) کی حکومت پنجاب میں جس طرح تحلیل ہوئی وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ سپریم کورٹ میں اس کو بھی دیکھا جائے کہ اسمبلیاں سیاسی وجوہات پر تحلیل کی گئیں یا عوامی مفاد میں، یا آئین اور قانون کی بالادستی کے لیے کی گئی، یہ تمام سوالات جواب چاہتے ہیں، جو ہمارے پاس تو ہے لیکن انصاف کا ترازو اعلیٰ عدلیہ کے پاس ہے۔انہوں نے کہا کہ میں تنقید نہیں کرنا چاہتا کہ بینچ میں ایسے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں کہ جن کے کردار پر بہت بڑا سوالیہ نشان لگ گیا ہے تاہم پوری کورٹ بیٹھ کر اس مسئلے کو سنے تو گزشتہ 8 ماہ میں جو کچھ ہوا اسے ری ایڈریس کیا جاسکتا ہے۔خواجہ آصف نے کہا کہ مسلسل بحران میں رہنے کی وجہ سے ملکی معیشت تباہی کے دہانے پر ہے۔انہوںنے کہاکہ پاکستان کی ہی نہیں کسی ملک کی تاریخ میں ایسا نہیں ہوا کہ ایک بندہ باہر گاڑی میں بیٹھا ہوا ہے اسے عدالت بلا رہی ہے، اسے عدالت کہہ رہی ہے کہ آجاؤ وہ نہیں آتا، لاڈ پیار سے کہتے ہیں، قانونی و آئینی طور پر کہتے ہیں وہ نہیں آتا جبکہ ہماری تو ایک مرتبہ میں ہی ضمانتیں منسوخ ہوجاتی ہیں۔رہنما مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ ہم ان چیزوں کا ازالہ نہیں مانگتے ہم صرف چاہتے ہیں کہ یہ ملک آئین و قانون کے مطابق چلایا جائے، ملک کے وسائل سے 22 کروڑ عوام استفادہ کریں، اشرافیہ کے چند ہزار افراد نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہماری کردار کشی ہوتی ہے، عوام سمجھتے ہیں کہ یہ ایم این اے پتا نہیں کتنے کروڑوں روپے لیتے ہیں، کتنی گاڑیاں استعمال کرتے ہیں ہم باہر نکلیں تو باہر تانگہ تک نہیں کھڑا ہوتا جبکہ یہاں اشرافیہ میں ایسے ایسے لوگ ہیں جن کے لیے 15، 15 منٹ ٹریفک روک دی جاتی ہے۔وزیر دفاع نے کہا کہ پورا پاکستان سن لے ایک رکن قومی اسمبلی کی ماہانہ تنخواہ ایک لاکھ 68 ہزار روپے ہے، ہم کروڑوں اربوں روپے نہیں لیتے، اپنے خرچے پر آتے ہیں، یہاں ایسے بھی ایم این ایز ہیں جو پارلیمنٹ لاجز سے ایوان میں پیدل آتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ لیکن یہاں ایسے بھی لوگ موجود ہیں جن کا اسٹائل بادشاہوں والا ہے اور انہیں پوچھنے والا کوئی نہیں، جب وہ سڑکوں پر آتے ہیں تو سڑکوں پر کرفیو لگ جاتا ہے۔
وزیر دفاع نے کہا کہ ہمارے سر پر کسی نے ہاتھ نہیں رکھا ہوتا، نہ کسی کے لیے فیصلے لکھے ہوتے، کسی کی ڈکٹیٹر شپ کو دوام نہیں بخشا ہوتا، اس ملک میں سب سے پہلا آئینی حادثہ ایک جج نے کیا تھا جس نے نظریہ ضرورت کو درست قرار دیا تھا، سب سے پہلی سیاسی شہادت بھی عدلیہ نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی لگا کر اور نواز شریف کی آئینی شہادت بھی عدلیہ نے کی۔انہوںنے کہاکہ ہمارے دامن میں لگے داغ کو ساری دنیا جانتی ہے لیکن کوئی یہ نہ بتائے کہ اس کے دامن پر داغ نہیں ہے، سیاستدانوں میں آج بھی ایسے لوگ ہیں جن کا نام عزت و احترام لیا جاتا ہے۔
وزیر دفاع نے کہا کہ مجھے چوہدری پرویز الہٰی نے خود بتایا کہ میں ایک بیوروکریٹ کی بیٹی کی شادی میں گیا وہاں میرے حلقے کا یک بندہ سلامیاں اکٹھی کررہا تھا میں نے پوچھا کہ اب تک کتنی سلامی اکٹھی کرلی ہے جس پر اس نے جواب دیا کہ 72 کروڑ روپے اکٹھے کرلیے ہیں ابھی میٹر جاری ہے۔خواجہ آصف نے کہا کہ بقول چوہدری پرویز الہٰی نے اس سے پوچھا کہ کام مکمل ہوگیا یا ابھی جاری ہے تو اس شخص نے جواب دیا کہ ابھی جاری ہے جبکہ اسی بیوروکریٹ کی پہلی بیٹی کی شادی پر ایک ارب 20 کروڑ روپے اکٹھے ہوئے تھے جبکہ زیور اور گاڑیاں اس کے علاوہ تھیں۔وزیر دفاع نے کہا کہ کیا کسی نے اس 21یا 22ویں گریڈ کے افسر سے پوچھا، ہمیں تو 2 منٹ نہیں لگتے پکڑتے ہوئے،
90، 90 روز کے ریمانڈ دیے جاتے ہیں، مجھے جیل میں روٹی تک نہیں پہنچنے دیتے تھے اور ہمیں بتاتے ہیں کہ اس ملک کی حکمرانی کیسے کرنی ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ ملک سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں قائم ہوا تھا، پاکستان بنانے والے عمران خان کی طرح اسپانسرڈ لوگ نہیں تھے، جیل بھرو تحریک اب فلاپ ہوچکی ہے، اب ڈوب مرو تحریک چلائیں۔قبل ازیں عالیہ کامران نے توجہ دلاؤ نوٹس پر پیش کردیا۔ عالیہ کامران نے کہاکہ اسلام آباد میں عوام بالخصوص خواتین کے خلاف جرائم میں اضافہ کا باعث تشویش ہے۔توجہ دلائو نوٹس حکومتی ہدایت حاصل کرنے کے لیے آئندہ اجلاس تک ملتوی کردیا۔ بعد ازاں قومی اسمبلی کا اجلاس پیر کو شام پانچ بجے تک ملتوی کردیا گیا