کراچی (گلف آن لائن)سرمایہ داروں نے کہا ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی)ایک آف سائیکل جائزے میں اس ہفتے کے اوائل میں شرح سود میں اضافے کیلئے تیار ہے کیونکہ ملک کو آئی ایم ایف سے ملنے والے ایک ارب ڈالر کے قرض کے دوران اپنے مالی معاملات کو توازن میں لانے کے لیے دبا کا سامنا ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق حالیہ ٹریژری بل نیلامی میں مارکیٹ کے ماہرین مرکزی بینک کے پالیسی ریٹ میں کم از کم 200 بیسس پوائنٹس کے اضافے کی توقع کر رہے ہیں، جو اس وقت 17 فیصد پر ہے، متوقع اضافہ ان نرخوں پر مبنی ہے جو حکومت نے فنڈز اکٹھا کرنے کے لیے نیلامی کے لیے مقرر کیے ہیں۔
حکومت نے گزشتہ روز ہونے والی نیلامی میں 258 ارب روپے اکٹھے کیے، تین ماہ، 6 ماہ اور 12 ماہ کی مدت کے لیے کٹ آف کی شرحیں پچھلی نیلامی کے مقابلے میں 195بی پی ایس، 206 بی پی ایس اور 184 بی پی ایس زیادہ ہیں۔نقد رقم کی کمی سے دوچار پاکستان آئی ایم ایف سے فنڈنگ کا حصول یقینی بنانے کے لیے کلیدی اقدامات کر رہا ہے جس میں ٹیکسوں میں اضافہ، سبسڈیز کو ہٹانا اور شرح مبادلہ پر پابندیاں شامل ہیں۔
حکومت کو توقع ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ جلد معاہدہ ہو جائے گا اور میڈیا رپورٹس کے مطابق آئی ایم ایف کو توقع ہے پاکستان کی جانب سے پالیسی ریٹ میں اضافہ کیا جائے گا۔مرکزی بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی کا اگلا اجلاس 16 مارچ کو شیڈول ہے۔پاک کویت انویسٹمنٹ کمپنی میں ریسرچ کے اسسٹنٹ وائس پریذیڈنٹ عدنان شیخ نے کہا کہ شرح سود میں جلد اضافہ متوقع ہے اور اور یہ جمعے تک کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگلی پالیسی میٹنگ بہت دور ہے، حالات کو دیکھتے ہوئے اس میں اضافے کا اعلان کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔اسٹیٹ بینک اور آئی ایم ایف نے فوری طور پر اس حوالے سے تبصرے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔اسمعیل اقبال سیکیورٹیز کے ہیڈ آف ریسرچ فہد رف نے کہا کہ آئی ایم ایف نے کم از کم شرح کو بنیادی افراط زر سے زیادہ رکھنے کا ہدف دیا ہے، پاکستان میں افراط زر کی دو بنیادی ریڈنگز ہیں یعنی شہر میں (جنوری کیلئے 15.4فیصد)اور دیہی علاقوں میں (19.4فیصد) ہے اور اس سلسلے میں کوئی قومی بنیادی نمبر جاری نہیں کیا گیا، ا
گر اسٹیٹ بینک شرح کو دیہی بنیادی افراط زر سے اوپر لانے کی کوشش کرتا ہے، تو اسے 200 سے 300 بی پی ایس شرح میں اضافے کی ضرورت پڑے گی۔ایک مقامی فنڈ کے فنڈ منیجر محمد ایوب کھوڑو نے کہا کہ حکومتی مالیات سے متعلق حالیہ معاشی اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ مرکزی بینک کو کیش بیلنس کی کمی کا سامنا ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے مرکزی بینک کو مثر طریقے سے نظر انداز کیا ہے تاکہ زیادہ کٹ آف قبول کیا جا سکے۔