انسانی حقوق

امریکی طرز کے انسانی حقوق کا اصل چہرہ بے نقاب

بیجنگ (گلف آن لائن)فروری کے وسط میں سنکیانگ میں ووکس ویگن پلانٹ کا دورہ کرنے کے بعد ووکس ویگن چین کے سربراہ رالف برانڈسٹیڈ نے زور دے کر کہا کہ سنکیانگ پلانٹ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے سرے سے کوئی شواہد نہیں ہیں۔ رالف برانڈسٹیڈ کے مطابق ان کی ملاقات یہاں ایک پیشہ ور ٹیم سے ہوئی، پلانٹ میں کام کرنے کا ماحول اچھا ہے اور ہر کوئی ایک دوسرے کے ساتھ تعاون سے اپنا کام عمدگی سے کر سکتا ہے۔

جمعرات کے روز چینی میڈ یا کے مطا بق سنکیانگ میں واقع ووکس ویگن پلانٹ میں کام کرنے والے 29 فیصد ملازمین کا تعلق اقلیتی قومیتوں سے ہے جن میں سے 17 فیصد ویغور بھی ہیں۔ سنکیانگ کا دورہ کرنے والی متعدد بین الاقوامی شخصیات کا بھی یہی متفقہ موقف ہے کہ وہ سنکیانگ میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ بنیادی طور پر مغربی میڈیا میں پیش کیے جانے والے بیانیے سے یکسر مختلف ہے ، سنکیانگ کی ترقی اور استحکام میں کامیابیاں حیران کن ہیں۔ سنکیانگ کے تمام حصوں میں سلامتی، استحکام اور خوشحالی امریکہ اور مغرب کے جھوٹ کا سب سے طاقتور جواب ہے۔

حالیہ برسوں میں امریکہ اور دیگر کچھ مغربی ممالک نے سنکیانگ کے انسانی حقوق اور دیگر مسائل کے بہانے چین کے خلاف مسلسل “انسانی حقوق کی جنگیں” شروع کی ہیں اور ان کا مقصد چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنا اور چین کی ترقی کو روکنا ہے ۔ کیوبا کے وزیر خارجہ روڈریگیز نے نشاندہی کی کہ “امریکہ انسانی حقوق کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے تاکہ واشنگٹن کے مفادات کی پاسداری نہ کرنے والے ممالک کو دھمکایا جا سکے “۔

اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق مشیل بیچلیٹ نے گزشتہ سال مئی میں سنکیانگ کا دورہ کیا تھا ۔لیکن چونکہ انہوں نے اپنے مشاہدات کی روشنی میں سنکیانگ کے حوالے سے جن خیالات کا اظہار کیا وہ امریکی توقعات کے برعکس تھے ،لہذا انہیں بلآخر دباؤ میں آکر استعفیٰ دینا پڑا۔ امریکہ کی نظر میں چین کے حوالے سے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کو بھی اُس کا آلہ کار بننا چاہیے۔ اس طرح کی سوچ اور طرز عمل سے ایک مرتبہ پھر دنیا پر امریکی بالادستی کا چہرہ بے نقاب ہوا ہے۔

سنہ 1977 سے امریکہ ہر ملک کے انسانی حقوق کے بارے میں سالانہ رپورٹیں جاری کرتا آ رہا ہے، جس میں انسانی حقوق کو دوسرے ممالک کے داخلی معاملات میں مداخلت کرنے، تسلط پسندی اور بالادستی کی سیاست کرنے اور دوسرے ممالک کے حقوق کی خلاف ورزی یا یہاں تک کہ دوسرے ممالک پر حملہ آور ہونے کے بہانے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔اس کے نتیجے میں دنیا کے بہت سے خطے جنگوں و افراتفری کا شکار ہو چکے ہیں، افغانستان، مشرق وسطیٰ کے متعدد ممالک، تنازعات اور سلامتی کے مسائل میں گھرے ہوئے ہیں، اور مقامی لوگوں کی زندگی، صحت، بقا اور ترقی کے حقوق کو شدید نقصان پہنچا ہے۔

6 فروری کو ترکی میں ایک شدید زلزلہ آیا جس سے شام بھی متاثر ہوا ۔ برسوں سے جاری جنگ اور امریکی یک طرفہ پابندیوں کے باعث شام کے لیے بڑی مشینری اور طبی سازوسامان درآمد کرنا ناممکن ہے ، اور امدادی سامان متاثرہ علاقوں تک پہنچانا بھی مشکل ہے،زلزلے کے بعد امدادی کارروائیوں میں شدید رکاوٹیں آئیں ۔کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ اور مغرب کی جانب سے عائد کی جانے والی پابندیوں نے شامیوں کو ان کے بقا کے بنیادی حق سے محروم کر دیا ہے، جس کی وجہ سے عالمی سطح پر انتہائی سنگین انسانی بحران پیدا ہوا ہے۔

امریکہ انسانی حقوق کے معاملات پر دوسرے ممالک پر من مانے الزامات عائد کرتا ہے لیکن اپنے ہاں انسانی حقوق کے معاملات پر آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ سیاسی جوڑ توڑ کی وجہ سے امریکہ دنیا میں کووڈ۔19 سے متاثرہ کیسز اور اموات کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے ، لوگوں کی زندگی اور صحت کے حق کو سنجیدگی سے نظر انداز کیا گیا ہے۔ بڑی تعداد میں گن وائلنس واقعات انسانی حقوق کے بحران کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ منظم نسلی امتیاز نے اقلیتوں کے خلاف حملوں کو ہوا دی ہے۔ جھوٹی جمہوریت لوگوں کے سیاسی حقوق کو پامال کر رہی ہے۔ پرتشدد قانون کے نفاز سے تارکین وطن پناہ گزینوں کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے۔

یہ امریکہ میں تحفظ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی محض کچھ ہی مثالیں ہیں ۔ چینی وزیر خارجہ چھن گانگ نے حال ہی میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے 52 ویں اجلاس کے اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے واضح طور پر نشاندہی کی کہ ” ایسے چند ممالک کی مخالفت کی جائے جو اپنے ہاں انسانی حقوق کے سنگین مسائل کو نظر انداز کرتے ہیں اور حل کرنے سے قاصر ہیں، لیکن ہر جگہ وہ انسانی حقوق کے “چیمپئن ” کا کردار ادا کرتے ہیں اور دوسرے ممالک پر من مانے الزامات عائد کرتے ہیں ۔ ”

ہم خلوص دل سے امریکی حکومت کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ “منصف” ہونے کا دکھاوا نہ کرے، دوسرے ممالک پر انسانی حقوق کے تحفظ کا الزام لگانے کے مذموم مقاصد کے تحت جھوٹ نہ باندھے، اور اپنے ہاں معاشی مسائل اور انسانی حقوق کے بارے میں زیادہ خیال رکھے ۔ اس کے علاوہ انسانی حقوق کے نام پر بین الاقوامی قوانین، بین الاقوامی نظم و نسق اور بین الاقوامی نظام کو پامال اور کمزور نہیں کرنا چاہیے، دنیا کے مختلف حصوں میں افراتفری اور یہاں تک کہ انسانی آفات بھی پیدا نہیں کرنی چاہئیں تاکہ انسانیت کو ایک صاف و شفاف دنیا میسر آ  سکے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں