بیجنگ (گلف آن لائن)”اگر امریکیوں نے ہمیں چھلانگ لگانے کے لئے کہا،تو ہم ضرور پوچھیں گے: کتنی بلندی سے؟ سیدھی چھلانگ یا قلابازی ؟”جمعہ کے روز چینی میڈ یا کے مطا بق
چند روز قبل آسٹریلوی رکن پارلیمنٹ جورڈن سٹیل جان نے امریکا اور برطانیہ کے ساتھ جوہری آبدوزوں کے تعاون پر شدید تنقید کرتے ہوئے آسٹریلیا اور امریکا کے ذلت آمیز تعلقات پر شدید برہمی کا اظہار یوں کیا تھا ۔ ان کا یہ بیان ان گنت امریکی اتحادیوں کی بے بس آواز کی نمائندگی بھی کرتا ہے۔
اگرچہ آسٹریلیا امریکہ کا روایتی اتحادی ہے، اور امریکہ کی قیادت میں بہت سے جغرافیائی اور بین الاقوامی فوجی بلاکوں کا ایک اہم رکن بھی ہے، جیسے “فائیو آئیز”،تاہم ان امریکی اتحادیوں اور پیروکاروں کو جو کچھ درپیش ہے وہ ایک سرد حقیقت ہے: آزاد مرضی اور وقار کے بغیر امریکہ کے سامنے گھٹنے ٹیک دینا۔
یہ واقعی ایک خوبصورت اور افسوسناک دنیا ہے، دنیا کو ایک خاندان ہونا چاہیے، چاہے امیر ہو یا غریب، طاقتور ہو یا کمزور، دنیا کے علم، وسائل، مواقع کا اشتراک کیا جانا چاہیے۔تاہم حقیقت ہمیشہ سرد اور ظالمانہ ہوتی ہے، مساوات اور محبت کی روشنی کبھی حقیقت میں نہیں چمکتی، اور اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ دنیا کے زیادہ تر ممالک، خاص طور پر کمزور ممالک کے پاس بالادستوں اور غنڈوں کے سامنے مرضی کا فریق منتخب کرنے کا کوئی چارہ نہیں ہوتا، اور صرف ” کمزور ممالک کے پاس کوئی سفارتی انتخاب نہیں ہوتا ” اور انہیں اس حوالے سے مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
آج تک امریکہ جمہوریت کے نام پر دنیا کو تقسیم کر رہا ہے،
گروہوں کو اکٹھا کر رہا ہے، عالمی کیمپ کو نام نہاد “جمہوریت” اور “غیر جمہوریت” کے تصورات سے تقسیم کر رہا ہے، اور “جمہوریت” کے نام پر دوسروں کو دھمکا رہا ہے، جس نے بین الاقوامی برادری کی طرف سے شدید عدم اطمینان اور مخالفت کو جنم دیا ہے۔ زیمبیا کی سوشلسٹ پارٹی کے سربراہ فریڈ ممبے نے حال ہی میں بیجنگ میں منعقدہ دوسرے بین الاقوامی فورم “جمہوریت: تمام انسانیت کے لئے ایک مشترکہ قدر” میں اپنی تقریر میں کہا: “اگر آپ دوسروں کے وقار کا احترام نہیں کرتے ہیں، اگر آپ ممالک کی خودمختاری کا احترام نہیں کرتے ہیں تو آپ اپنے آپ کو جمہوریت کا محافظ نہیں کہہ سکتے”۔ بہت سے شرکاء نے یہ بھی کہا کہ جمہوریت،
تمام انسانیت کی مشترکہ قدر کے طور پر، جدیدیت کی عالمگیر جستجو ہے اور انسانیت کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کے لئے اقدار کی بنیاد ہے. جمہوریت متنوع ہے، کوئی ایک سائز کا ماڈل نہیں ہے، اور کوئی بھی ملک اپنی نام نہاد جمہوریت دوسروں پر مسلط نہیں کر سکتا۔ دوسرے ممالک میں نام نہاد “جمہوری تبدیلی” کو انجام دینا جمہوریت کی روح کو پامال کرتا ہے۔ تمام ممالک کو عالمی تہذیبوں کے تنوع کا احترام کرنا چاہئے ، باہمی تعاون کرنا چاہئے ، انسانیت کے ہم نصیب معاشرے کے بارے میں بیداری کو فروغ دینا چاہئے ، اور عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے مل کر کام کرنا چاہئے۔
ظاہر ہے کہ بین الاقوامی برادری میں زیادہ سے زیادہ لوگ امریکہ کی “جمہوری” بالادستی سے انکار کرنے کے لئے آگے آئے ہیں، اور یہاں تک کہ امریکہ کے اتحادیوں کو بھی احساس ہو گیا ہے کہ کسی پر بھروسہ کرنا آہستہ آہستہ خودکشی کے مترادف ہے، اور یہ کہ بڑے درخت کے نیچے لمبا گھاس نہیں اگ سکتا۔ جو کبھی کبھار آپ کو ہوا اور بارش سے تو بچاتا ہے، لیکن آپ کو ہمیشہ اندھیرے میں بھی رہنا ہے۔ لوگ امید کرتے ہیں کہ ایک دن تمام ممالک کو فریق منتخب کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی، تمام ممالک انسانی خاندان کے رکن ہیں، دنیا کے علم، وسائل، مواقع کا اشتراک کریں گے اور دنیا کے لیے اپنا حصہ ڈالیں گے، یہ ایک ایسی انسانی دنیا ہے جس کا خواب ہر کوئی دیکھتا ہے، نہ کہ ایک منقسم یونی پولر دنیا، اور “جمہوریت” کے تصور سے ٹوٹی ہوئی دنیا ۔
اس طرح کے اتفاق رائے کے تحت بین الاقوامی برادری چین کی طرف سے پیش کردہ انسانیت کے ہم نصیب معاشرے کی عظیم اہمیت اور گہری تفہیم تسلیم کر رہی ہے۔یہ ایک عظیم آئیڈیل ہے، اگرچہ یہ انسانی لالچ کے سامنے بہت دور دکھائی دیتا ہے، لیکن آخر کار یہ لوگوں کو امید دیتا ہے۔ لوگ چین کے پیش کردہ گلوبل ڈویلپمنٹ انیشی ایٹو کی اہمیت کو بھی تسلیم کر رہے ہیں، جو ایک مشترکہ احساس ہے جس کی روح کے مطابق مشترکہ ترقی کی راہ پر کسی کو بھی پیچھے نہیں چھوڑ دیا جانا چاہیے۔مزید یہ کہ لوگ چین کے پیش کردہ عالمی تہذیبی انیشی ایٹو بھی سرہاتے ہیں کیونکہ لوگ سمجھ گئے ہیں کہ صرف ایک پھول کے کھلنے کا مطلب تہذیب کا مرجھانا ہے، سو پھول کھلنا ہی جمہوریت کا حقیقی حسن ہے۔عالمی تہذیب کے تنوع کا احترام کرنے سے ہی حقیقی معنوں میں تمام انسانیت کی مشترکہ اقدار کواجاگر کیا جا سکتا ہے۔