ڈیموکریسی سمٹ

دنیا کو حقیقی جمہوریت کی ضرورت ہے نہ کہ” ڈیموکریسی سمٹ” کی، رپورٹ

واشنگٹن (گلف آن لائن )رواں ہفتے امریکہ کے زیر اہتمام دوسری “ڈیموکریسی سمٹ” کا آغاز ہوا۔ اگرچہ سمٹ کا موضوع “جمہوریت بمقابلہ مطلق العنانیت” رکھا گیا ، لیکن منتظمین نے “جمہوریت” کے جھنڈے تلے نظریاتی لکیریں کھینچیں، گروہوں اور دھڑوں کو تشکیل دے کر دنیا میں تقسیم پیدا کرنے کی کوشش کی۔ سمٹ کا یہ مقصد واضح طور پر نظر آنے لگا، اور “ڈیموکریسی سمٹ” کے ذریعے جمہوریت کی روح سے انحراف اور اسے کچلنا بھی خود کانفرنس کے لئے سب سے بڑی ستم ظریفی بن گئی ۔بدھ کے روز میڈ یا رپورٹ کے مطا بق

بعض تجزیہ کاروں نے نشاندہی کی کہ “ڈیموکریسی سمٹ” کے کنوینئر کی حیثیت سے امریکہ نے جمہوری اصولوں اور نظام کے تعین میں عالمی رہنما کا کردار ادا کرنے کی کوشش کی۔ لیکن ماضی کے “ڈیموکریسی سمٹ” کے نتائج کو دیکھتے ہوئے اس کانفرنس نے “جمہوریت اور ترقی کے درمیان تعلقات” کے اہم ترین سوال کا جواب نہیں دیا اور خود مختاری اور انصاف کے درمیان توازن کو حل کرنے میں ناکام رہا۔ جیسا کہ سابق جاپانی وزیر اعظم یوکیو ہتویاما نے نشاندہی کی کہ ، “تشویش ناک رجحان یہ ہے کہ کچھ مغربی ممالک مخالف اقدار پیدا کر رہے ہیں، نام نہاد ‘جمہوریت بمقابلہ مطلق العنانیت’ اور ‘آزادی بمقابلہ آمریت’ سمیت بیانات کو ہوا دے رہے ہیں، جو لامحالہ اخراج پسندی ، محاذ آرائی اور پاپولزم میں اضافے کا باعث بنے گا ۔

قدیم یونان میں براہ راست جمہوریت کے عمل سے لے کر 13 ویں صدی میں برطانوی پارلیمنٹ میں پیدا ہونے والی نمائندہ جمہوریت ،اور پھر 1917 میں روس میں ابھرنے والے سوشلسٹ نظام تک ، لوگ مرکزیت کی مخالفت کرنے اور آزادی اور وقار کے لئے لڑنے کے لئے جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ تاہم افسوس کی بات یہ ہے کہ مغربی سیاسی بالادستی کے قیام کے بعد مغربی طرز کی جمہوریت کو خاص طور پر عالمگیر اقدار کی بلندی اور حیثیت دی گئی ، بین الاقوامی نظریاتی میدان میں مغربی تسلط کی بنا پر ایک بہتر انسانی سماجی نظام کی تلاش کو مصنوعی طور پر روک دیا گیا ہے اور مغربی طرز کی جمہوریت اور مغرب مخالف جمہوریت، صحیح اور غلط کے سادہ اور خام فیصلے کے پیمانوں میں تبدیل ہو چکی ہے۔ اگرچہ اب تک انسانیت جمہوری نظام پر اتفاق رائے کر چکی ہے لیکن جمہوری نظام کی مخصوص شکل کی تفہیم میں فرق انسانی تاریخ کا سب سے بڑا تصوراتی ٹکراؤ بن چکا ہے جس کی وجہ سے انسانوں کے درمیان گہری خلیج پیدا ہوئی ہے۔

“مغربی طرز کی جمہوریت یا تباہی، یہ ایک سوال ہے”، یہ وہی سوال ہے جو نام نہاد “ڈیموکریسی سمٹ” متکبرانہ انداز میں دنیا کے سامنے اٹھا رہی ہے۔تاہم، یہ ایک جعلی تصور ہے۔ اسی طرح کے بہت سے حالات میں امریکہ اور مغرب نے بارہا یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ “کھلے معاشروں، مشترکہ اقدار اور اصولوں پر مبنی بین الاقوامی نظام کو مضبوط بنانے کے لیے پرعزم ہیں”۔ تاہم لوگوں کو پوچھنا پڑتا ہے کہ : “مشترکہ اقدار” کس کی اقدار ہیں؟ ایک کھلی دنیا کس طرح مصنوعی طور پر تخلیق کردہ، اقتدار اعلی سے بالاتر اور تسلط پسند نام نہاد “مشترکہ قدر” کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے؟ یہ واقعی ایک سوال ہے.

بین الاقوامی برادری کو پائیدار ترقی اور عدل و انصاف کے درمیان توازن کی ضرورت ہے ۔ اس طرح کے مطالبات کو نظر انداز کرنا اور اپنی نام نہاد جمہوریت کو دوسرے ممالک پر مسلط کرنا یا یہاں تک کہ دوسرے ممالک پر نام نہاد “جمہوری تبدیلی” کو عملی طور پر نافذ کرنا جمہوریت کی روح کو پامال کرتا ہے۔ دنیا کو “ڈیموکریسی سمٹ” کی ضرورت نہیں جس میں گروہ پسندی ، بالادستی اور لوٹ مار کا فلسفہ غالب ہے، بلکہ حقیقی جمہوریت درکار ہے ۔ صرف جمہوریت کی حقیقی روح کو آگے بڑھا کر، ہر قسم کے جعلی جمہوری نقاب اتار کر اور بین الاقوامی تعلقات کی جمہوریت کو خلوص دل سے فروغ دے کر ہی ہم انسانی ترقی کے نصب العین کو مسلسل فروغ دے سکتے ہیں۔ امریکی اتحادیوں سمیت بہت سے لوگوں کے لیے ” امریکی آفاقی جمہوریت” میں غرق ہونے کا خیال اب فرسودہ  ہو گیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں