اسلام آباد (گلف آن لائن)عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل نے آئندہ ورلڈ ہیلتھ اسمبلی کو ایک رپورٹ پیش کی ہے کہ پاکستان میں پولیو کے کیسز اب بنیادی طور پر صرف جنوبی خیبر پختونخواہ تک محدود ہیں جہاں بچوں تک رسائی میں بدستور چیلنجز موجود ہیں۔میڈیا رپورٹ کے مطابق ڈائریکٹر جنرل نے کہا کہ جنوری 2021 سے تمام رپورٹ شدہ کیسز ملک کے کل 171 اضلاع میں سے خیبرپختونخوا کے جنوبی علاقے کے 7پولیو سے متاثرہ اضلاع میں سامنے آئے۔
ڈبلیو ایچ او کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال بنوں میں وائلڈ پولیو وائرس کا ایک کیس رپورٹ ہوا ہے۔ورلڈ ہیلتھ اسمبلی 21 مئی سے جنیوا میں شروع ہو رہی ہے، جہاں زیادہ تر غور و خوض کووِڈ 19 کی جاری اور ابھرتی ہوئی صورتحال پر کیا جائے گا جب کہ رکن ممالک کی جانب سے پولیو کے خاتمے کی عالمی کوششوں پر بھی بات کی جائے گی۔ڈبلیو ایچ او نے کہا کہ وائلڈ پولیو وائرس کی ٹائپ- ون افغانستان اور پاکستان کے کچھ حصوں میں پائی جاتی رہی ہے، یہ دونوں وہ آخری ممالک ہیں جہاں یہ وائرس مقامی طور پر موجود ہے۔
دونوں ممالک نے سال 2000سے مسلسل پیشرفت دکھائی ہے جیسا کہ پولیو مائیلائٹس اور مثبت ماحولیاتی نمونوں کے کیسز کی کم ہوتی ہوئی تعداد، جغرافیائی طور پر ترسیل اور ہر ملک میں ایک واحد فعال سلسلے میں ٹرانسمیشن چینز کی تعداد میں کمی سے ظاہر ہوتا ہے۔ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ان بقیہ ذخائر والے علاقوں سے باہر ماحولیاتی نمونوں میں وائلڈ پولیو وائرس ٹائپ ون کی موجودگی اس کے منتقلی کے مسلسل خطرے کو ظاہر کرتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سال 2022کے دوران وائلڈ پولیو وائرس کی قسم 13کی وجہ سے پولیو میلیٹس کے 20کیسز اور وائلڈ پولیو وائرس کی قسم 14کے 41مثبت ماحولیاتی نمونے رپورٹ ہوئے، تمام کیسز جنوبی خیبرپختونخوا کے تین اضلاع میں مرکوز تھے چنانچہ خاص طور پر جنوبی خیبرپختونخوا کو ہدف بنانے والے ایک آپریشنل پلان پر عمل درآمد کیا جا رہا تھا۔اسی طرح افغانستان اورپاکستان میں وائلڈ پولیو وائرس ٹائپ ون کے جینیاتی تنوع میں کمی کا سلسلہ جاری ہے اور سال 2020میں 11چینز کے مقابلے میں سال 2023کی ابتدا میں ایک واحد ترسیلی چین نظر آئی۔