اسلام آباد (گلف آن لائن)وفاقی وزیر برائے توانائی انجینئر خرم دستگیر خان نے کہا ہے کہ 9 مئی کو عمران خان کے حامیوں نے سرکاری اور عسکری املاک کو توڑا اور آگ لگائی، 2014 میں پی ٹی آئی نے پی ٹی وی پر اور 2023 میں ریڈیو پاکستان پشاور پر حملہ کیا ہے، پرتشدد احتجاج ، فوجی تنصیبات پر حملوں اور آتشزنی کا جواز پیش نہیں کرسکتا، ذمہ داروں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہو گی، عوام کے جان و مال اور بنیادی حقوق کاتحفظ کیا جائیگا،ملک میں عام انتخابات اپنے مقررہ وقت پر ہوں گے۔
منگل کو سیاسی صورتحال پر غیر ملکی میڈیاسے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ بدعنوانی کے الزام میں عمران خان کی گرفتاری کے بعد ہونے والے تشدد کے واقعات کے دو ہفتے بعد صورتحال واضح ہو کر سامنے آ گئی ہے ، کس طرح سے واقعات ہوئے9 اور 10 مئی کو ہونے والے احتجاج میں عوام کی بڑی تعداد میں حصہ نہیں لیا اور نہ یہ کوئی احتجاج کا جمہوری طریقہ تھا۔ یہ ایک تشدد تھا اور اس کا مقصد سیاسی فائدہ حاصل کرنا تھا اور یہ عمران خان کے پیروکاروں کی شرپسندی تھی۔ انہوں نے کہا کہ جمہوری احتجاج پر امن ہو تا ہے اور اس کا اظہار نعروں ،پلے کارڈزاور دیگر طریقوں سے کیاجاتا ہے اور اس احتجاج کا اظہار تشدد ، آتشزنی اور تباہی پھیلانے کے ہتھکنڈوں کے ذریعے نہیں ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ اب یہ بات بھی بالکل واضح ہو گئی ہے کہ ان مظاہروں میں جس طرح کہ بیان کیاجا تا ہے کہ ہزاروں کی تعدادمیں لوگ شامل نہیں تھے اور عمران خان کی گرفتاری کے خلاف لوگوں کی بڑی تعداد بالکل باہر نہیں نکلی۔ انہوںنے کہاکہ اسلام آبادمیں بھی مٹھی بھر لوگ تھے اور مختلف بڑے شہروں میں عمران خان کی جماعت کے انتشار پسند احتجاج کیلئے نکلے اور انہوں نے کراچی سے پشاور تک ملک بھر میں تخریب کاری پر مبنی کارروائیاں کی،عمران خان کے حملہ آوروں نے دفاعی تنصیبات پر حملے کئے اور انہیں آگ لگائی، شہدا کی یادگاروں، مواصلات کے نظام ، ریڈیو پاکستان ، سکولوں، ایمبولینسوں، پرائیویٹ گاڑیوں اور رکشوں کو نظر آتش کیا۔
انہوں نے کہا کہ 2014 سے 2016 تک دہشت گردی کے ملک میں جو واقعات ہوئے ہیں اس احتجاج کے دوران بھی ہمیں اسی طرح کی دہشت گردی کی کارروائیاں دکھائی دیں۔ پاکستان کی تاریخ میں کسی سیاسی جماعت نے سکولوں ، ریڈیو پاکستان، ایمبولینسوںاور دفاعی تنصیبات پر حملے نہیں کئے اور نہ ہی انہیں جلایا۔ انہوں نے کہا کہ 9 اور 10 مئی کو جو واقعات ہوئے وہ میونخ میں 100 سال پہلے ہونیوالے واقعات کی تصویر کا منظر پیش کررہے تھے۔ 9 سال پہلے2014 میں دھرنے کے دوران عمران خان اور اس کے پیروکاروں نے اسلام آباد میں پی ٹی وی پر حملہ کیا تھا ، انہوں نے پارلیمنٹ کی حفاظتی جنگلے کو توڑا تھا۔
ایوان صدر کے گیٹ توڑے، 2014میں پی ٹی آئی کارکنان نے سینکڑوں پولیس والوں پر حملہ کیاتاہم کسی کوبھی سزا نہیں ملی، 2016 میں بھی انہوں نے اسلام آباد پر چڑھائی کی اور اس وقت یہاں پہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی پرتشدد احتجاج ، فوجی تنصیبات پر حملوں اور آتشزنی کا جواز پیش نہیں کرسکتا،اس انتشار پسندی سے قانون کے مطابق نمٹا جائیگا۔انہوںنے کہاکہ کوئی نئی قانون سازی یا قانون میں ترمیم نہیں کی جا رہی اور نہ ہی نئی عدالتیں بنائی جارہی ہیں،
9 اور 10 مئی کو شر پسندی کرنے والوں کے خلاف موجودہ قانون کے مطابق ہی کارروائی ہو گی، انہی قوانین پر سابق وزیراعظم عمران خان کے دور حکومت 2018سے 2022تک عمل ہوتا رہا ہے اور وزیراعظم پارلیمنٹ میں یہ کہہ چکے ہیں کہ جن جن شر پسندوں نے سول املاک کو نقصان پہنچایا ان کے خلاف انسداد دہشتگردی ایکٹ 1997 اور ضابطہ فوجداری کے تحت کارروائی ہو گی جنہوں نے دفاعی تنصیبات کو نقصان پہنچایا ہے ان کے خلاف آرمی ایکٹ 1952 کے تحت کارروائی ہو گی۔ خرم دستگیر نے کہا کہ موجودہ مخلوط حکومت میں شامل جماعتوں نے 2018 میں ہونے والے انتخابات میں پول کئے جانے والے دو تہائی ووٹ حاصل کررکھے ہیں اور یہ چاروں صوبوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ توقع ہے کہ پارلیمنٹ عام انتخابات کیلئے آئندہ وفاقی بجٹ میں مکمل فنڈ فراہم کر یگی۔
انہوںنے کہاکہ پارلیمنٹ رواں سال اگست میں اپنی مدت پوری کرے گی اور انتخابات اپنے شیڈول کے مطابق ہوں گے۔وزیراعظم شہباز شریف کی زیر قیادت وسیع البنیاد حکومت تمام شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے پر عزم ہے،عدالتیں پوری طرح فعال ہیں۔ بنیادی حقوق بحال ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ شر پسندی میں ملوث افراد کی شناخت اور کارروائی کیلئے ویڈیوز کیشواہد موجود ہیں اور اگر کوئی کسی پرتشدد سرگرمی میں ملوث نہ ہواتو اس کے خلاف کارروائی نہیں ہوگی، عدالتیں اس سلسلہ میں اپنا کام کررہی ہیں،موجودہ حکومت کے دور میں اپریل 2022 سے اب تک اسلام آباد میں کسی صحافی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ 9 اور 10 مئی کو جس طرح کی دہشت گردی کی کارروائیاں کی گئیں یہ اسی طرح ہیں جس طرح 2014 سے لے کر 2016 تک کی سرگرمیوں کا سامنا تھا۔ دہشت گردوں نے بھی جی ایچ کیو اور دفاعی تنصیبات پر حملے کئے تھیاسی طرح 9 اور 10 مئی کو حملے ہوئے ہیں،دہشگردی کے واقعات میں ہزاروں سکیورٹی اہلکاروں اور لوگ شہید ہوئے۔ ایک ایسی جماعت جس نے 2014 میں پی ٹی وی اور 2023 میں ریڈیو پاکستان پشاور پر حملہ آو ر ہوئی۔