اسلام آباد (گلف آن لائن)وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قانونی اصلاحات و احتساب عرفان قادر نے کہاہے کہ اعلیٰ عدلیہ بھی نیب قانون کے دائرہ کار میں آتی ہے،مقدس گائے کوئی نہیں ہے، جج صاحبان کے کیسز جوڈیشل کونسل میں ضرور چلیں گے ،جہاں کرپشن کا عنصر ملے گا اور کرپشن کے فوجداری قوانین لاگو ہوسکتے ہوں گے وہاں ججز کا بھی ٹرائل کیا جاسکتا ہے، ڈیو لیکس سے ایسے شواہد ملے جن میں کرپشن کا بھی عنصر ملتا ہے،
حکومت نے بہت احتیاط سے کام لیا، انہی کے برادر ججز کا کمیشن بنایا، کمیشن کے سامنے بے گناہی ثابت کر سکتے تھے، اپنی مرضی کا بینچ بنا کر کمیشن کی کارروائی کو روک دیا،اس تناظر میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ بنایا گیا جس کا مقصد تھا چیف جسٹس پر کوئی انگلی نہ اٹھائے ،افسوس سے کہنا پڑتا ہے انہوں نے اپنی مرضی کا ایک اور بینچ بنا لیا ، اب عدلیہ نے ریویو ایکٹ اور پنجاب انتخابات کیس کی سماعت کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی ہے، پارلیمنٹ کے قانون نہیں مان رہے اور اپنی مرضے سے الیکشن کرانے کی بھی کوشش کی ہے،
ان سب چیزوں پر ہمیں اعتراضات ہیں،لقادر ٹرسٹ کیس میں بھی کچھ شواہد سامنے آئے ہیں، سابق وزیرِ اعظم کے اہل خانہ کو ملنے والے مزید تحائف کی تفصیلات سامنے آئی ہیں، سابق وزیر اعظم کی اہلیہ کی دوست فرح گوگی اور ان کے شوہر کو واپس لانے کی کوشش کی جارہی ہے ،عدلیہ سے کوئی ڈیل نہیں ہورہی اور ہونی بھی نہیں چاہیے، مریم نواز کے خلاف جو کیس تھا وہ کلیئر ہوگیا، یہی کیس نواز شریف کا بھی ہے،کرپشن کے خاتمے تک ملک ترقی نہیں کر سکتا، جب تک احتساب نہیں ہو گا کرپشن ختم نہیں ہو گی۔
جمعرات کو یہاں پریس کانفرنس کرتے ہوئے عرفان قادر نے کہا کہ نیب آرڈیننس 1999 کا مقصد ملک سے لوٹی ہوئی دولت واپس لانا ہے، سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کا احتساب تو ہوتا رہتا ہے لیکن سب کا بلا امتیاز احتساب ہونا چاہیے ۔ معاون خصوصی نے کہاکہ پبلک آفس ہولڈر کی تعریف میں فوجی افسران کو شامل نہیں کیا گیا ہے، حاضر سروس جرنیلوں کیلئے فوج کے اپنے قوانین ہیں، جو بہت سخت ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارے سپیریئر کورٹ ججز کے بارے میں کنفیوژن پیدا کردی گئی تھی کہ ان کے معاملے سپریم جوڈیشل کونسل میں جائیں گے، میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ جہاں کرپشن کا عنصر ملے گا اور کرپشن کے فوجداری قوانین لاگو ہوسکتے ہیں وہاں ان کا بھی ٹرائل کیا جاسکتا ہے۔
انہوںنے کہاکہ گزشتہ چند برسوں میں دیکھا گیا کہ وزرائے اعظم کو نااہل کیا گیا اور پھر عدالت عظمیٰ نے یہ بھی کہا کہ ان کے کیسز نیب میں جائیں، بیوروکریٹس کے خلاف محکمانہ کارروائی ہوتی ہے اور سیاستدانوں کی نااہلی ہوتی ہے اس کے باوجود عدلیہ نے کہا کہ ان کے کیسز نیب میں بھی چلیں، لہذا جج صاحبان کے کیسز جوڈیشل کونسل میں ضرور چلیں گے تاہم اگر ان میں کرپشن کا عنصر پایا جاتا ہے تو نیب بھی ان کیسز کو دیکھ سکتا ہے، مقدس گائے کوئی نہیں ہے، اعلیٰ عدلیہ بھی نیب قانون کے دئرہ کار میں آتی ہے۔عرفان قادر نے کہا کہ حال ہی میں کچھ جج صاحبان کی آڈیو لیکس سامنے آئی ہیں جن کی تحقیقات کیلئے کمیشن بنانا پڑے، ان آڈیوز سے ایسے شواہد ملے جن میں کرپشن کا عنصر نظر آتا ہے لہٰذا حکومت نے جج صاحبان پر ہی مشتمل ایک کمیشن بنایا، یہ کمیشن جج صاحبان کے لیے ایک اچھی سہولت تھی لیکن انہوں نے خود ہی اس کی کارروائی کو روک دیا۔
انہوں نے کہا کہ اس تناظر میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ بنایا گیا جس کا مقصد یہ تھا کہ الزام تراشی بند کی جائے اور چیف جسٹس پر کوئی انگلی نہ اٹھائے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ انہوں نے اپنی مرضی کا ایک اور بینچ بنا لیا اور اس ایکٹ کے وجود میں آنے سے پہلے ہی اس کا اطلاق روک دیا جوکہ وہ نہیں روک سکتے تھے۔انہوںنے کہاکہ اب نئی پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ عدلیہ نے ریویو ایکٹ اور پنجاب انتخابات کیس کی سماعت کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی ہے، وہ پارلیمنٹ کے قانون نہیں مان رہے اور اپنی مرضے سے الیکشن کرانے کی بھی کوشش کی ہے، ان سب چیزوں پر ہمیں اعتراضات ہیں۔عرفان قادر نے کہا کہ دوسری بات میں یہ کرنا چاہ رہا ہوں کہ ہمیں کچھ کیسز میں بریک تھرو ملا ہے، القادر ٹرسٹ کیس میں بھی کچھ شواہد سامنے آئے ہیں، بہت سارے اور مہنگے تحفے تھے ہمارے سابق وزیراعظم کی اہلیہ کو دیے گئے ہیں، ان کے کچھ دوست احباب کو ڈونیشنز بھی آئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کافی بڑی تعداد میں کچھ اور اکائونٹس بھی ملے ہیں جن میں تقریباً ساڑھے 4 ارب روپے کی ٹرانزکشنز کی گئی ہیں، ہمارے سابق وزیراعظم کی اہلیہ کی دوست فرح گوگی اور ان کے شوہر کے اکائونٹس میں ساڑھے 4 ارب روپے کی ٹرانزکشنز کی ئی، انہیں ملک واپس لانے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ وہ ان چیزوں کا جواب دے سکیں۔سابق آئی ایس آئی چیف جنرل فیض سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جنرل فیض حمید سے متعلق کوئی شواہد میری نظر سے نہیں گزرے، کوئی ایسی چیز آئے گی تو میں نہیں سمجھتا کہ نیب اسے نہ دیکھے، نیب بالکل اسے دیکھ سکتی ہے، یہ نیب کا مینڈیٹ ہے۔وزیرِ اعظم کے معاون خصوصی احتساب نے کہا کہ ہر وہ فعل جس سے کسی کو کوئی ناجائز فائدہ یا نقصان ہو کرپشن ہے، ساری دنیا میں کرپشن سے متعلق احساس پیدا ہو چکا ہے،
اقوام متحدہ نے بھی کرپشن کے خاتمے پر دلچسپی ظاہر کی، اقوام متحدہ نے انسداد کرپشن کنونشن بھی منظور کیا تھا۔معاون خصوصی نے کہاکہ پاکستان بھی اس پر دستخط کرنیوالے ممالک میں شامل ہے، یو این کے کرپشن کے خلاف سیمینار میں شرکت کی، موجودہ احتساب قانون، ملکی دولت لوٹنے والوں کے احتساب کیلئے بنایا گیا، قومی احتساب آرڈیننس 1999 سب کے لیے ہے، اس سلسلے میں کوئی مقدس گائے نہیں۔سابق وزیراعظم نواز شریف کی عدلیہ سے ڈیل سے متعلق سوال کے جواب میں عرفان قادر نے کہا کہ میں نہیں سمجھتا کہ کسی ڈیل کی ضرورت ہے، عدلیہ سے کوئی ڈیل نہیں ہورہی اور ہونی بھی نہیں چاہیے، مریم نواز کے خلاف جو کیس تھا وہ کلیئر ہوگیا، یہی کیس نواز شریف کا بھی ہے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ پاناما کیس میں اقامہ شامل ہی نہیں تھا لیکن انہیں رقم نہ لینے پر سزا سنائی گئی، عدالت کو ماضی میں کئے گئے اپنے ایسے فیصلوں پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔