کراچی (گلف آن لائن) گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے کہا ہے کہ شرعی اصولوں کو بینکاری پر زبردستی لاگو نہیں کریں گے اس معاملے میں بینکوں کے کاروباری مفادات کو بھی مدنظر رکھا جائے گا۔
اسٹیٹ بینک کے قیام کے 75 سال مکمل ہونے پر تقریب کا انعقاد کیا گیا جس سے خٖطاب کرتے ہوئے گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ شرعی بنیادوں پر بینکاری کو استوار کرنا اسٹیٹ بینک کی ترجیحات میں سرفہرست ہے، اس پر کاروباری کشش کے ساتھ عمل درآمد ہوگا، زبردستی لاگو نہیں کریں گے، بینکوں کے کاروباری مفادات کو بھی مدنظر رکھا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اب اسٹیٹ بینک کا لیبل فریم ورک ماڈرن سینٹرل بینکنگ کے عین مطابق ہے جس میں وقت کے ساتھ بہتری لائی گئی، بینکاری قانون بھی بہت سے قوانین کے مطابق تھا، 1962 میں بینکنگ قانون بنا جو اب کسی بھی جدید بینکاری قوانین کے مطابق ہے، تمام اختیارات اسٹیٹ بینک کے پاس ہیں، اسٹیٹ بینک کے موجودہ قانون میں قیمتوں کے تعین، معاشی ترقی اور استحکام جیسی بنیادی ذمہ داریاں دی گئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مانیٹری پالیسی کا فریم ورک بھی ماڈرن اور خودمختار ہے، مانیٹری پالیسی اراکین کے ساتھ تین معاشی ممبران اور بورڈ کے بیرونی اراکین پر مشتمل ہے، مانیٹری پالیسی کا فیصلہ آزادانہ طریقے سے کیا جاتا ہے، ریگولیٹری فریم ورک ایک ماڈرن اور بین الاقوامی معیارات سے مطابق ہے۔
گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ اب بینکوں کی نگرانی عالمی اصولوں کے مطابق رسک بیسک سپرویژن فریم ورک کے تحت کی جاتی ہے، بینکوں کی نگرانی مضبوط ہے اور مانیٹرنگ میں بہتری آئی جس میں آٹو میشن پر بہت فوکس ہے، اس وقت 3 ہزار کا اسٹاف ہے جو آٹو میشن کا نتیجہ ہے جب کہ 80 کی دہائی میں 14 ہزار ملازمین تھے۔
جمیل احمد نے بتایا کہ اب کئی دنوں میں ہونے والے کام منٹوں میں ہوتے ہیں، ٹیکنالوجی پر مبنی بہت بڑے پراجیکٹس کیے ہیں، بینکوں کی رپورٹنگ کو ڈیجیٹائز کیا گیا ہے، ڈیٹا ویئر ہاؤس سسٹم سے آن لائن رپورٹنگ ہوتی ہے، ای سی آئی بی کریڈٹ کی تفصیلات کا ریکارڈ بھی ڈیجیٹائز کردیا اب کوئی بینک اپنی برانچ سے کسٹمر کی کریڈٹ ہسٹری جان سکتا ہے، فارن ایکس چینج ریگولیٹری فریم ورک نے آن لائن رپورٹنگ کو ممکن بنایا۔
انہوں نے کہا کہ پانچ سال پہلے اسٹیٹ بینک کے افسران فائلوں کے پیچھے چھپے نظر آتے تھے اب ٹیبل صاف رہتی ہے، کے ایم سسٹم کے تحت فائلز آن لائن طریقے سے منتقل کی جاتی ہیں، اکاؤنٹ کھولنے کے لیے ڈیجیٹل آن بورڈنگ کی سہولت دی ہے، گھر بیٹھے اکاؤنٹ کھولا جاسکتا ہے، بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے روشن ڈیجیٹل اکائونٹس کی سہولت دی، روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس میں 6 ارب ڈالر سے زائد کی رقوم آئیں۔
گورنر نے کہا کہ افراط زر کو میڈیم ٹرم ہدف کے مطابق رکھنا ہے، افراط زر ایک بہت بڑا چیلنج ہے اسے میڈیم ٹرم ہدف میں لانا ضروری ہے، یہ ہدف 5 سے 7 فیصد ہے، افراط زر دو سال میں 5 تا 7 فیصد پر آجائے گا، یہ بہت بڑا چیلنج ہے لیکن اس پر فوکس ہیں اور دو سال میں اس ہدف کو حاصل کریں گے دوسرا ہدف مالیاتی شعبے کی کارکردگی صلاحیت کو بہتر اور مستحکم بنانا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا ہدف پائیدار بنیادوں پر صنفی فرق کے بغیر مالیاتی خدمات اور قرضوں تک رسائی کو یقینی بنانا ہے، بینکاری نظام سے دور طبقہ کو روایتی بینکاری خدمات تک رسائی فراہم کریں گے، الیکٹرانک طریقے سے کسٹمرز کے کوائف کی تصدیق کی جاسکے گی، کسٹمرز کے بارے میں ایک سینٹرلائز طریقے سے کوائف کی جانچ کی جاسکے گی، یہ بہت بڑا پراجیکٹ ہے اس سے پبلک کو فائدہ ہوگا، اکاؤنٹ کھولنے میں سہولت ہوگی۔
گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ ڈالر کی کوئی کارٹیلائزیشن نہیں ہے اب ڈالر کی سپلائی بہتر ہے، اس وقت ہمارے پاس دو بڑے مسائل ہیں اول مہنگائی اور دوم عالمی ادائیگیاں، آئی ایم پروگرام سے یہ مسئلہ حل کرنے میں مدد ملے گی مہنگائی کے نمبر میں کافی بہتر آئے گی۔
جمیل احمد نے کہا کہ ڈالر ریٹ کا فرق بڑھنے سے ہنڈی حوالہ بڑھا تھا، ہم نے انٹربینک اور اوپن مارکیٹ کے ریٹ کے فرق کو کم کردیا امید ہے اب ترسیلات لیگل چینلز سے آئیں گی، جو بینکس بھی غیر قانونی کاموں میں ملوث ہیں ان کے خلاف ایکشن لیں گے، اب قانونی راستوں سے ڈالر کی فراہمی میں اضافہ ہوگا۔