بیجنگ (گلف آن لائن)جولائی میں، جب میں سنکیانگ جا رہی تھی تو مجھے میرے استاد محترم کی کال موصول ہوئی۔ وہ پوچھنے لگے کہ “ارے،تم دوبارہ سنکیانگ کیوں جا رہی ہو؟”واقعی، مئی میں، جب انہوں نے مجھے کال کی تھی ،تو اس وقت بھی میں سنکیانگ جانے والی تھی۔ اور اب تک میں 7 بار سنکیانگ جا چکی ہوں۔وہاں میں نے بہت سے لوگوں سے ملاقات کی، بہت ساری کہانیاں سنیں، اور بہت سی تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا۔
پہلے اس سوال کے بارے میں بات کرتے ہیں: میں اتنی مرتبہ سنکیانگ کیوں گئی ہوں؟کیونکہ سنکیانگ بہت بڑا ہے، میں وہاں 7 بار گئی اور پھر بھی مکمل سنکیانگ نہیں دیکھ سکی۔ سبزہ زار، گوبی صحرا، جنگلات اور جھیلوں کے قدرتی مناظر بے شک دلفریب ہیں۔ اس سے بھی زیادہ دلکش متنوع تاریخی، ثقافتی اور قومیتی رنگ ہیں۔
میں نے ویغور بزرگوں کو دیکھا ہے جو گانے اور ناچنے میں ماہر ہیں، اور بچوں کو صاف ستھری گلیوں میں فٹ بال کھیلتے ہوئے دیکھا ہے؛ میں نے قازق چرواہوں کے ساتھ ان کے خیمے میں عید الفطر منائی ہے ، اور منگول قومیت کے لکڑی کے مکانات میں بھی رہائش اختیار کر چکی ہوں؛ میں نے ایسے ہان خاندان کی کہانی بھی سنی ہے جو کئی دہائیوں سے صحرا میں درخت لگا رہا ہے۔
یہ ایک ایسا علاقہ ہے جہاں بہت سی قومیتیں ایک ساتھ رہتی ہیں، ہزاروں سالوں کی تاریخ نے اس سرزمین سے گہرے تعلقات کے حامل ایک بڑے خاندان کی تشکیل کی ہے۔حالیہ برسوں میں، امریکہ نے سنکیانگ کے امور کو بڑھاوا دیا، نام نہاد “جبری مشقت” کو بہانہ بنا کر سنکیانگ سے متعلق مصنوعات پر پابندی لگا دی۔ یہ کہنا ضروری ہے کہ “جبری مشقت” ایک مضحکہ خیز اصطلاح ہے۔
کیا خیرات کا انتظار کیے بغیر اپنے ہاتھوں سے کام کرکے بہتر زندگی کمانا سب سے باوقار کام نہیں؟ اگر لوگ کام نہیں کرتے تو وہ روزی روٹی کیسے کمائیں گے؟دوسروں پر پابندیاں، بلیک میل، لوٹ مار یا پھر نوآبادیت سے؟ اگر ہم سنکیانگ میں زراعت کے شعبے پر ایک نظر ڈالیں تو سنکیانگ کی زرعی میکانائزیشن ملک میں سرفہرست ہے۔ میں نے سنکیانگ میں کھیتوں کے دورے کیے، بوائی سے لے کر آبپاشی تک، کیڑے مار ادویات کے چھڑکاؤ سے کٹائی تک، زیادہ تر کاشتکاری کا کام مشینوں کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ کھیتوں میں بہت کم لوگ دکھائی دیتے ہیں،تو کس کو کام کرنے پر “مجبور” کیا جا رہا ہے؟
پھر ایک اور سوال ہے : کیا ہم غیر معقول پابندیوں اور ناجائز تکنیکی ناکہ بندیوں سے ڈرتے ہیں؟سنکیانگ کی فویون کاؤنٹی میں واقع کھہ کھہ تو ہائی “ہیرو مائن” جواب دے سکتی ہیں۔ 1950 اور 1960 کی دہائیوں میں، چین کو طاقت اور جوہری بلیک میلنگ کے غیر ملکی خطرات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ کمزور اقتصادی اور تکنیکی بنیادوں اور انتہائی مشکل حالات کے باوجود، چین نے جوہری بموں، میزائلوں اور مصنوعی سیاروں جیسی جدید ٹیکنالوجیز میں کامیابیاں حاصل کر لیں اور یہ تمام کامیابیاں اپنی طاقت کے بل بوتے پر حاصل ہوئیں۔
ان سائنسی جوہری تجربات میں استعمال ہونے والی لیتھیم، بیریلیم، ٹینٹلم، نیوبیم اور سیزیم جیسی بیشتر نایاب دھاتیں کھہ کھہ تو ہائی “ہیرو مائن” سے آئی تھیں۔ لوگوں کو یاد ہوگا کہ پچھلے سال، سویڈش کپڑوں کے برانڈ H&M نےمغربی رائے کی پیروی کرتے ہوئے سنکیانگ کاٹن کا بائیکاٹ کیا۔ دوسری سہ ماہی میں چینی مارکیٹ میں اس کی فروخت میں 74 ملین امریکی ڈالر کا نقصان ہوا۔وافر معدنی وسائل کے علاوہ ، سنکیانگ کی زرعی مصنوعات اور سیاحوں میں سنکیانگ کی مقبولیت ہی اس مسئلے کو واضح کر سکتی ہے۔ متحد اور خود انحصار چینی عوام کے سامنے، سنکیانگ کی ترقی کو کوئی نہیں روک سکتا اور نہ ہی کوئی چین کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔
سنکیانگ میں ایک تاریخی کہانی بہت مشہور ہے۔ منگ شاہی خاندان میں ، تنازعات سے دور رہنے کے لیے، منگول قومیت کی ایک شاخ ٹورگٹ قبیلہ مغرب میں دریائے وولگا کے طاس کی طرف چلا گیا۔ 1771 کے اوائل میں، اس وقت کے روسی حکمرانوں کے استحصال اور جبر کی وجہ سے، ٹورگٹ قبیلہ اپنی مادر وطن میں واپس آگیا۔ گھرواپسی کا سفر ہزاروں میل دور تھا اور اس میں آدھا سال لگا۔ روانگی کے وقت تقریباً 170,000 لوگ تھے اور واپسی کے وقت صرف 70,000 کے قریب رہ گئے۔ ٹورگٹ کی وطن واپسی عالمی تاریخ میں ایک عظیم باب ہے۔ وطن سے دور رہنے کے باوجود،انہوں نے مادر وطن کو کبھی فراموش نہیں کیا۔ اس کے پیچھے مضبوط یکجہتی کا قومی جذبہ ہے اور یہ وہ بنیادی قوت بھی ہے جس کی بدولت سنکیانگ کے لوگ مشکلات اور جبر سے خوفزدہ نہیں ہوتے۔
سنکیانگ کے سات دوروں میں میرا سب سے اہم احساس یہ ہے کہ ایک مستحکم سماجی ماحول ہمیشہ ترقی کے لیے سب سے اہم پیشگی شرط ہے۔ کئی سال پہلے دہشت گردانہ حملوں کے بعد، میں سنکیانگ کے ایک بازارمیں گئی۔اس وقت بازار میں سیاح،نیز مقامی لوگ بھی بہت کم نظر آتے تھے۔ رواں سال میں ایک بار پھر کاشغر گئی، رات کے 12 بجے تھے، اس وقت بھی وہاں لوگوں کا آنا جانا تھا اور یہ سب بہت شاندار لگ رہا تھا۔
13 تاریخ کو چین کی وزارت خارجہ کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والے “عالمی طرز حکمرانی کی تبدیلی اور تعمیر کے لیے چین کے فارمولے” میں ایک بار پھر اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ سلامتی بنی نوع انسان کی سب سے بنیادی ضرورت اور سب سے اہم بین الاقوامی عوامی بھلائی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ سنکیانگ میں کیا ہوا تھا، اور لوگوں کے دلوں میں دہشت گردانہ حملوں سے لگنے والے زخم ابھی تک پوری طرح بھرے نہیں ہیں۔ پرامن اور مستحکم ماحول ہی معاشی ترقی کا باعث بن سکتا ہے،
آج سنکیانگ کی فوڈ اسڑیٹس کھانے کی خوشبو سے مہک رہی ہیں ، قہوہ خانوں میں بزرگ سازوں پر موسیقی کی دھنیں بکھیر رہے ہیں اور گلیاں فٹ بال کھیلتے بچوں قہقہوں سے گونج رہی ہیں ۔ سنکیانگ میں مسکراتی ہوئی زندگی اور وہاں کے پرسکون ماحول کی ہم سب کو مل کر حفاظت کرنی چاہیے!